لاہور(سپورٹس رپورٹر) پاکستان ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق کا کہنا ہے کہ کرکٹ کمیٹی کی سفارشات پر پی سی بی حکام جو بھی فیصلہ کرینگے اسے تسلیم کیا جائے گا، دورہ نیوزی لینڈ کی کارکردگی پر سخت مایوسی ہوئی، بابر اعظم کی انجری کا پاکستان ٹیم کو بہت نقصان ہوا ہے۔ تنقید کرنے والے اپنے ظرف کے مطابق بولتے ہیں، کوویڈ کی آئیسولیشن کی وجہ سے بھی ٹیم کی تیاریوں پر فرق پڑا۔ محمد عار سے میرا یا ٹیم مینجمنٹ کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ کی پرفارمنس پر انہیں ٹیم میں منتخب نہیں کیا گیا، اچھی کارکردگی دکھا کر دوبارہ ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ہیڈ کوچ مصباح الحق نے دورہ نیوزی لینڈ سے واپسی پر پریس کانفرنشس کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دورہ نیوزی لینڈ کی کارکردگی پر کوئی معذرت کرنے نہیں آیا، مجھ سمیت پوری ٹیم مینجمنٹ کو نتائج سے مایوسی ہوئی ہے، کیونکہ جب آپ نمبر ون رہ چکے ہوں تو ایسی بری کارکردگی کی توقع نہیں کی جاتی ہے۔ کرکٹ کو سمجھنے والے حقائق کا بخوبی علم ہے۔ نیوزی لینڈ میں ہم نے سو فیصد کارکردگی دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ قسمت نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم اس وقت دنیا کی ٹاپ نمبر ون ٹیم ہے، ڈیڑھ دو سال سے اس نے بہت اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے جبکہ ہم بہت پیچھے ہیں۔ لوگوں کو یہ بات بھی انڈر سٹینڈ کرنی چاہیے کہ کوویڈ کی وجہ سے کرکٹ تبدیل ہو گئی ہے، ہمارے کھلاڑیوں کو بھی دورہ نیوزی لینڈ میں ایسی پریکٹس نہیں مل سکی جس کا نقصان ہوا۔ کوویڈ کی وجہ سے صرف پاکستان کی نہیں بلکہ دنیا بھر کی کرکٹ متاثر ہوئی ہے۔ ہم سب کو ملکر اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ موجودہ صورتحال سے کس طرح نکلنا ہے۔ مصباح الحق کا کہنا تھا کہ آن دی فیلڈ ہم سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں، فیلڈنگ میں ہم سے کیچز بھی ڈراپ ہوئے جبکہ انجری نے بھی بہت متاثر کیا۔ بابر اعظم دونوں فارمیٹ میں پاکستان ٹیم کو دستیاب نہیں تھے، انکی کمی کو شدت سے محسوس کیا گیا۔ سیریز میں بابر اعظم کا بڑیا اہم رول تھا لیکن ان کی انجری ہمارے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ ہم نے ٹیسٹ اور ٹی ٹونٹی سیریز میں بہت محنت کی تاہم نیوزی لینڈ نے ہم سے اچھی کرکٹ کھیل کر سیریز اپنے نام کی۔ پاکستان ٹیم نے حریف ٹیم کو ٹف ٹائم بھی دیا۔ ہمیں اپنی غلطیوں پر قابو پانا ہوگا جس کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی۔ موجودہ کوویڈ کی صورتحال میں مارک بوچر، ملکی آرتھر اور شاستری بھی اس بات کو سمجھ رہے ہیں۔ اس کا حل نکالنا ہے، ہم بھی پریشان ہیں کوینکہ ایک ببل سے دوسرے ببل میں جانا پڑتا ہے۔ مصباح الحق کا کہنا تھا کہ کرکٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہوگا وہاں بھی کرکٹر ہیں جو تمام صورتحال کو جانتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی کرکٹ کمیٹی اور بی او جی کے سامنے پیش ہو چکا ہوں۔ کرکٹ کمیٹی کی جانب سے چیئرمین پی سی بی کو جو بھی سفارشات بھجوائی جائیں گے اس پر پی سی بی جو بھی فیصلہ کرئے گا مجھے قبول ہوگا۔ قبل از وقت کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کرکٹ کمیٹی کیا سفارشات دے گی۔ ہم سب کو ملکر کام کرنا ہے، کرکٹ کمیٹی کو کوئی غلطیاں نظر آئی ہیں تو ان پر کام کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایشوز کو بہتر کرنے اور پلان کرنے کی ضرورت ہے۔ رزلٹ آنے میں تھوڑا وقت لگ سکتا ہے، تسلسل آ گیا تو ہماری کرکٹ بھی بہتر ہو جائے گی۔ اوور آل پاکستان کرکٹ بہتری کی جانب گامزن ہے۔ کھلاڑی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ جس پوسٹ پر کام کر رہا ہوں اس پر پریشر ہوتا ہے۔ چھانگیں مارنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ نیوزی لینڈ میں فواد عالم، فہیم اشرف اور محمد رضوان نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے اسی طرح اظہر علی نے بھی مشکل صورتحال میں رنز کیے ہیں۔ مصباح الحق کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم جب نمبر سات پر تھی اس وقت بھی اپنے ہوم گراونڈ پر تمام ٹیموں کے لیے سخت حریف تھی اب تو وہ دنیا کی نمبر ون ٹیم ہے۔ دورہ نیوزی لینڈ میں کہیں بھی ٹیم نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ محمد عامر کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے ہیڈ کوچ کا کہنا تھا کہ ہمارا کبھی بھی محمد عامر کے ساتھ ایسا رویہ نہیں رہا جس کا وہ کہہ رہے ہیں۔ 2016ءمیں ان کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پر انہیں مکمل سپورٹ کیا۔ جہاں تک انہیں ٹیم میں شامل کرنے کا سوال ہے کہ میرے ساتھ سلیکشن کمیٹی میں دیگر چھ ارکان بھی موجود تھے کسی نے بھی ان کی پرفارمنس پر انہیں فیور نوہیں کیا۔ شاہین شاہ آفریدی، محمد حسنین اور حارث روف جس طرح کی پرفارمنس دے رہے تھے انہیں بھی ڈراپ نہیں کا جا سکتا تھا۔ انجری کے بعد محمد عامر اپنے ردھم میں واپس نہیں آئے تھے ان کی پیس میں بھی فرق پڑا ہے۔ وقار یونس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عامر کے ساتھ ہمارا کوئی ایشو نہیں ہے۔ عا