ملک کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ زلزلے کی شدت 4.4 اور گہرائی 60 کلو میٹر تھی۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ زلزلے کا مرکز مقبوضہ کشمیر میں تھا۔زلزلے کے جھٹکے 6 بج کر 59 منٹ پر محسوس کیے گئے۔نیشنل سیسمک مانٹیرنگ سینٹر کے مطابق لاہور اور اسلام آباد میں یکے بعد دیگرزلزلے کے دوجھٹکے محسوس کیے گئے، دونوں کا مرکز مقبوضہ کشمیر تھا۔بتایا گیا ہے کہ پہلا جھٹکا شام چھ بجکر 59 منٹ پر محسوس کیا گیا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 4.6ریکارڈ کی گئی جبکہ اِس کی گہرائی 60 کلومیٹر تھی۔ دوسرا جھٹکا 7 بجکر دومنٹ پر محسوس کیا گیا جسکی شدت 5.1 ریکارڈ کی گئی جبکہ اِسکی گہرائی 65 کلومیٹر تھی۔جبکہ زلزلے کے جھٹکے منڈی بہا الدین، آزاد کشمیر کے علاقوں میر پور سمیت، بھمبر، سماہنی اور دیگر علاقوں میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گے۔زلزلے قدرتی آفت ہیں جن کے باعث دنیا بھر میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق زمین کی تہہ تین بڑی پلیٹوں سے بنی ہے۔ پہلی تہہ کا نام یوریشین، دوسری انڈین اور تیسری اریبئین ہے۔ زیر زمین حرارت جمع ہوتی ہے تو یہ پلیٹس سرکتی ہیں۔ زمین ہلتی ہے اور یہی کیفیت زلزلہ کہلاتی ہے۔ زلزلے کی لہریں دائرے کی شکل میں چاروں جانب یلغار کرتی ہیں۔زلزلوں کا آنا یا آتش فشاں کا پھٹنا، ان علاقوں میں زیادہ ہے جو ان پلیٹوں کے سنگم پر واقع ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں ایک مرتبہ بڑا زلزلہ آ جائے تو وہاں دوبارہ بھی بڑا زلزلہ آ سکتا ہے۔ پاکستان کا دو تہائی علاقہ فالٹ لائنز پر ہے جس کے باعث ان علاقوں میں کسی بھی وقت زلزلہ آسکتا ہے۔کراچی سے اسلام آباد، کوئٹہ سے پشاور، مکران سے ایبٹ آباد اور گلگت سے چترال تک تمام شہر زلزلوں کی زد میں ہیں، جن میں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے حساس ترین شمار ہوتے ہیں۔ زلزلے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا پانچواں حساس ترین ملک ہے۔پاکستان انڈین پلیٹ کی شمالی سرحد پر واقع ہے جہاں یہ یوریشین پلیٹ سے ملتی ہے۔ یوریشین پلیٹ کے دھنسنے اور انڈین پلیٹ کے آگے بڑھنے کا عمل لاکھوں سال سے جاری ہے۔ پاکستان کے دو تہائی رقبے کے نیچے سے گزرنے والی تمام فالٹ لائنز متحرک ہیں جہاں کم یا درمیانے درجہ کا زلزلہ وقفے وقفے سے آتا رہتا ہے۔کشمیر اور گلگت بلتستان انڈین پلیٹ کی آخری شمالی سرحد پر واقع ہیں اس لئے یہ علاقے حساس ترین شمار ہوتے ہیں۔ اسلام آباد، راولپنڈی، جہلم اور چکوال جیسے بڑے شہر زون تھری میں شامل ہیں۔ کوئٹہ، چمن، لورالائی اور مستونگ کے شہر زیرِ زمین انڈین پلیٹ کے مغربی کنارے پر واقع ہیں، اس لیے یہ بھی ہائی رسک زون یا زون فور کہلاتا ہے۔کراچی سمیت سندھ کے بعض ساحلی علاقے خطرناک فالٹ لائن زون کی پٹی پر ہیں۔ یہ ساحلی علاقہ 3 پلیٹس کے جنکشن پر واقع ہے جس سے زلزلے اور سونامی کا خطرہ موجود ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صرف بالائی سندھ اور وسطی پنجاب کے علاقے فالٹ لائن پر نہیں، اسی لئے یہ علاقے زلزے کے خطرے سے محفوظ تصور کئے جا سکتے ہیں۔