تجزیہ: محمد اکرم چودھری
امداد لیتے رہیں تو "ایبسلوٹلی ناٹ" کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ پاکستان کو عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں جذباتی بیانات کے بجائے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں۔ عوامی سطح پر مقبولیت حاصل کرنے کے لیے جذباتی بیانات کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کو امریکہ سمیت دنیا کے تمام اہم ممالک کے ساتھ اپنے مفادات، ضروریات اور حالات کو دیکھتے ہوئے بہتر تعلقات قائم کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی قونصل جنرل ولیم کے مکانیولے کے مطابق دو ہزار اٹھارہ سے دو ہزار بیس کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ سویلین امداد دی۔ امریکہ کہ طرف سے سرکاری سطح پر امداد کا نقطہ نظر سامنے آنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی امداد بہتر انداز میں خرچ ہوئی ہے، کیا امریکی امداد کے فوائد عوامی سطح پر پہنچے ہیں، کیا حکومت دو ہزار اٹھارہ سے 2020ء کے دوران سب سے زیادہ زیادہ امریکی امداد لینے کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے مسلسل باتیں ہو رہی ہیں۔ امریکہ نے افغانستان سے افواج کے انخلاء کے معاملے میں بھی پاکستان کے مثبت کردار اور تعاون کا واضح الفاظ میں ذکر کیا ہے۔ امریکہ تسلیم کرتا ہے کہ وہاں پاکستان نے سب سے زیادہ مدد کی ہے۔ ان حالات کو دیکھنے کے بعد بھی اگر پاکستان غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرے، وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اہم افراد غیر حقیقی گفتگو کریں تو معاملات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت امریکی تعاون اور امداد کے باوجود عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت اپنی ناقص منصوبہ بندی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے امریکی امداد اور تعاون کے حقیقی ثمرات عوام تک پہنچانے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت امریکہ سمیت کسی بھی ملک سے امداد لے رہی ہو تو اسے عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے۔ عوام کے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب حکومت بھی سرمایہ کاروں کے لیے بہتر مواقع پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ امریکی قونضل جنرل نے مختلف شعبوں میں امریکی امداد کا ذکر کیا ہے۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان شعبوں میں فرق عوام کے سامنے رکھے۔ حکومت اپنی خارجہ پالیسی واضح کرے۔