امریکہ کے سابق صدر رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب ’’The Real War‘‘ میں لکھا ہے بسااوقات ایک گولی چلائے بغیر بھی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ اس کا اشارہ تو اس سرد جنگ کی طرف تھا جو چین اور امریکہ کے درمیان چل رہی تھی۔اب دور جانے کی کیا ضرورت ہے، محمد شاہ رنگیلا نے ’’سپردم بتومایۂ خویش را‘‘ کے مصداق سب کچھ نادر شاہ کے حوالے کر دیا تھا۔ جب شاہ شاعری کرنے لگیں اور حکمران ’’ایں دفترِ بے معنی غرقِ مے ناب‘‘ کا ورد کرنے لگیں تو ذلت اور رسوائی ان قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔
دراصل بات امریکہ کی حکمتِ عملی کی ہو رہی تھی یہ تکلیف دہ تاریخی واقعہ نہ جانے کیوں یاد آ گیا ہے۔ امریکہ نے بیس سال تک افغانستان میں جنگ لڑی۔ اپنے عسکری ترکش کا آخری تیر تک آزما ڈالا۔ ’’Mother of all Bombs‘‘ بھی پھینک کردیکھ لیا لیکن افغانوں کو سر نگوں نہ کر سکا! یہ درست ہے کہ اس کے انتقام کی آگ کسی حد تک سرد ہو گئی۔ اُسامہ بن لادن کو اس کے گھر میں امریکی سپاہیوں نے بے رحمی سے مار ڈالا۔ خلیفہ مُلا عمر کسمپرسی کی حالت میں دشتِ غربت میں مر گیا لیکن افغانستان پر کٹھ پُتلیوں کے ذریعے حکمرانی کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ افغانستان پر دائمی قبضہ نہ تو ممکن تھا اور نہ سُپرپاور پہ چاہتی تھی۔ وہ صرف ’’King Maker‘‘ بننا چاہتے تھے۔ ہم نے اپنے سابقہ کالموں میں لکھا تھا کہ امریکہ بہادر نے کرزئی اور اشرف غنی کی صورت میں لنگڑے گھوڑے میدان میں اُتارے ہیں۔ ان کٹھ پتلیوں کو جھوٹی جمہوریت کے ذریعے منتخب کرایا گیا۔ وہ امریکہ کے کاسہ لیس تھے ، افغان عوام کی نمائندگی نہیں کرتے تھے۔ بھلا فوج ان کی وفادار کیونکر ہوتی! یہ بھی عرض کیا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد افغان فوج ایک دن بھی مزاحمت نہیں کریگی۔ تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی۔ کچھ دوڑ جائینگے، باقی طالبان کی صفوں میں شامل ہو جائینگے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بغیر گولی چلائے طالبان کابل میں داخل ہو گئے۔ وہ اشرف غنی جو پاکستان کو آنکھیں دکھاتا تھا۔ ہندوستان کے ساتھ ملکر اس کے خلاف سازشیں کرتا تھا، ذلیل اور رسوا ہو کر امریکی جہاز پر سوار ہو کر بمعہ ڈالروں کے رفوچکر ہو گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ حامد کرزئی ابھی تک بچا ہوا ہے۔ اس کا کردار بھی مخاصمانہ اور مجرمانہ تھا۔ کسی مصلحت کے تحت طالبان نے ابھی تک اس پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ یہ بھی جلد یا بدیر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔
امریکہ کا افغانستان پر حملہ کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کا نتیجہ نہ تھا۔ تاریخ اس کے سامنے تھی۔ افغانستان کے متعلق ایک پرانی کہاوت ہے۔ اس پر قبضہ کرنا آسان ہے لیکن اس کو برقرار رکھنا مشکل ہے۔ برطانیہ اور روس کا انجام اسکے سامنے تھا۔ برطانیہ اپنے وقت کی سُپرپاور تھا۔ اسکی تمام فوج دوست محمد نے مار ڈالی۔ صرف ایک ڈاکٹر ولیم پرائیڈن بچا جو زخمی حالت میں خچر پر سوار برطانوی ’Out Post‘ پر پہنچا۔ خچر بھی شام کو زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔ روس کا جو انجام ہوا وہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ افغانستان پر قبضے کی کوشش میں اپنی سالمیت بھی برقرار نہ رکھ سکا۔ سُپرپاور کا ’Status‘ بھی کھو بیٹھا۔ باایں ہمہ ان تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے اسکی یورش محلِ نظر ہے۔ دراصل 9/11 کے واقعے نے ساری امریکی قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہ انتقام کی آگ میں پُھنک رہا تھا۔ اقوامِ عالم کی ہمدردیاں بھی اسکے ساتھ تھیں ۔ صدر بش کیلئے اپنی سیاسی ساکھ بچانا مشکل ہو گیا ، اسکی نگاہیں اگلے الیکشن پر بھی تھیں۔ چنانچہ انجام کی پرواہ کئے بغیر حملہ ناگزیر ہو گیا۔ قطع نظر اسکے کہ کون جیتا کون ہارا! افغانیوں نے اسکی بھاری قیمت ادا کی۔ ہزاروں جانوں کا ضیاع اور معیشت کی مکمل تباہی!طالبان نے حکومت تو بنا لی ہے لیکن اس کو چلانا محال ہو گیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جس طاقت کیخلاف وہ بیس برس تک برسرِپیکار رہے اب اس کی طرف امداد طلب نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔
امریکہ پر بھی عجب انکشاف ہوا ہے۔ عسکری یلغار کے برعکس افغانستان کی معاشی ناکہ بندی اور سفارتی تنہائی زیادہ موثر ثابت ہو رہی ہے۔ وہی طالبان جو کبھی دندنا رہے تھے اب عملاً منقار زیر پر ہیں۔ آٹھ ارب ڈالر کی التجا کر رہے ہیں جو امریکہ نے مُنجمد کر دئیے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ یہ رقم امریکہ نے ہی اشرف غنی کو ان سے لڑنے کیلئے دی تھی۔ گویا یہ جہاں سے آئی تھی وہیں پہنچ گئی ہے۔ اسکے حصول کا واحد ذریعہ وہ شرائط ہیں جو امریکہ منوانا چاہتا ہے۔ وہ ہیں کیا؟ دہشت گرد گروپوں کی حوصلہ شکنی! انسانی حقوق کی پاسداری، حقوقِ نسواں، عورتیں بے شک ’’شمعِ انجمن‘‘ نہ ہوں لیکن ’’چراغ خانہ‘‘ بھی نہ بنیں۔ ان کو پڑھنے لکھنے اور نوکری کرنے کی آزادی ہو۔ طالبان اپنے عقائد میں سخت رویہ رکھتے ہیں۔ جو چیز ان کے مزاج میں رچ بسا گئی ہے ، بھلا اسکو کیونکر اور کیسے نکال باہر کرینگے۔ یہی حال پاکستان کا ہے نہ تو وہ اکیلا انہیں Recognise کر سکتا ہے اور نہ ان سے منہ موڑ سکتا ہے۔ امریکہ کی ناراضی بھی کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں ہے۔ صدر بائیڈن کا عمران خان کو فون نہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اسکے کئی مضمرات ہو سکتے ہیں جو بات امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ذوالفقار علی بھٹو کو کہی تھی اسکی بازگشت پھر سے سنائی دے رہی ہے۔ پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا۔ ڈپلومیٹک کارڈز کے پتے ٹھیک طرح سے کھیلنے ہونگے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ایف اے ٹی ریف کے مطالبات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ جس افغانستان کیلئے پاکستان بے پناہ قربانیاں دے رہا ہے۔ اسکی حکومت کا رویہ کیسا ہے؟ انہوں نے بارڈر پر Fewcing روک کر کچھ اچھا مظاہرہ نہیں کیا۔ اتنی جرات تو اشرف غنی حکومت کو بھی نہیں ہو سکی تھی۔ اس دورِ ابتلا میں اگر برادر ملک کا یہ رویہ ہے تو آگے چل کر کیا ہو گا؟ یقیناً اسکے مضمرات کو ہماری متحرک وزارت خارجہ اور محبوب قائد بخوبی سمجھتے ہونگے۔