لاہور‘ اسلام آباد (نیوز رپورٹر‘ اپنے سٹاف رپورٹر سے‘ نوائے وقت رپورٹ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ امریکی جنگ میں اگر ہم غیر جانبدار رہتے تو حالات بہت اچھے ہوتے۔ اس جنگ میں ہمارے شامل ہونے سے نقصان زیادہ ہوا جس کا معاوضہ معمولی تھا جس کے اثرات ابھی تک پاکستان میں موجود ہیں۔ ہماری سرحدوں کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے۔ جب تک بیٹھ کر بات نہیں کریں گے دہشتگردی نہیں رکے گی۔ کے پی کے پولیس دہشتگردوں سے مقابلہ نہیں کرسکتی۔ دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ تشویشناک ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار منگل کو میریٹ ہوٹل میں کے پی کے حکومت کے زیر اہتمام دہشتگردی کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار میں وزیر اعلیٰ خیبر پی کیمحمود خان، صدر پی ٹی آئی کے پی کے پرویز خٹک، سابق وفاقی وزراء سینیٹر شبلی فراز، شہر یار آفریدی، مراد سعید، عمر ایوب خان سمیت بڑی تعداد میں شرکاء موجود تھے۔ عمران خان نے کہا کہ موجودہ صورتحال سے بروقت نہ نمٹا گیا تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر یہ جنگ چل پڑی تو سب سے زیادہ نقصان کے پی کے کا ہوگا۔ اس لئے ہمیں عقل و دانش سے چلنا ہوگا۔ وفاقی حکومت کو بیٹھ کر اس معاملے پر مسلسل میٹنگ کرنی چاہئیں۔ ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ دہشت گردی سے وقت پر نہ نمٹا گیا تو اس کے منفی اثرات ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کیا وجہ تھی کہ ماضی میں پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حصہ دار بنایا گیا۔ ہم 20 سال تک امریکی جنگ کا حصہ رہے ہیں جس کے اثرات ابھی تک پاکستان میں موجود ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو مدعو کیا اورکہا کہ ہم امریکہ کی صرف لاجسٹک سپورٹ کریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ نائن الیون کے واقعہ میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا۔ میرا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ ہمیں امریکہ کی اس جنگ میں نہیں جانا چاہئے تھا۔ لیکن میرے مؤقف کے بعد مجھے ہی برا بھلا کہا گیا، مجھ پر تنقید کی گئی اور طالبان خان کہا گیا۔ اس سے پہلے ہمارے قبائلی علاقے سب سے پرامن سمجھے جاتے تھے۔ قائد اعظم نے 1948ء میں قبائلی علاقے سے فوج واپس بلائی تھی اور فرمایا تھا کہ قبائلی علاقے ہماری فوج ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ افغان جنگ پاکستان کے قبائلی علاقے سے لڑی گئی۔ جب امریکہ افغانستان آیا تو مجاہدین دہشتگرد قرار دیئے گئے۔ تحریک طالبان پاکستان امریکہ کی مدد کرنے پر ہمارے خلاف ہوگئی۔ امریکی انخلاء کے بعد پاکستان کے پاس افغانستان کے ساتھ دوستی کا سنہری موقع تھا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پہلی بار پاکستان حامی حکومت قائم ہوئی ہے۔ ہمارے دور میں افغانستان کی نئی حکومت سے اچھے تعلقات تھے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ نقصان خودکش حملوں سے ہوا ہے۔ امریکہ کے پاس بھی خود کش حملے روکنے کا طریقہ کار نہیں تھا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ افغانستان میں مختلف گروپ لڑ رہے تھے۔ ہمارے دشمنوں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھایا اور کارروائیاں کیں۔ ہم نے اشرف غنی حکومت سے تعلقات بہتر کرنے کی بہت کوشش کی تھی۔ 35 سے 40 ہزار لوگ ٹی ٹی پی میں شامل ہیں۔ ٹی ٹی پی کے پاس پانچ ہزار لوگ لڑاکا ہیں۔ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی سے کہا واپس جائیں۔ طالبان نے ٹی ٹی پی پر دبائو ڈالا۔ عمران خان نے کہا کہ فاٹا انضمام سیاسی کوششوں سے ممکن ہوا لیکن حکمرانوں نے کیا کیا۔ فاٹا انضمام کے بعد صوبوں نے تین فیصد بجٹ فاٹا کو دینے کا اعلان کیا۔ صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا نے پیسے دیئے۔ فاٹا بہت پیچھے تھا۔ وہاں پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت تھی مگر ہمارے پاس نہیں تھا۔ اور مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا کے فنڈ روک لئے۔ جبکہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں فیصلہ ہوا تھا فاٹا کو زیادہ فنڈ مہیا کرنے ہیں۔ افغانستان سے واپس آنے والے 40 ہزار لوگوں کو آباد کرنے کی ضرورت تھی۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمارے دور میں ملک چھ فیصد کی شرح نمو پر تھا لیکن اب معاشی صورتحال بدتر ہوچکی ہے اور وفاقی حکومت کی عدم توجہ کے باعث دہشتگردی بڑھ رہی ہے۔ سرحدوں کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ پولیس دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ٹی ٹی پی کے پاس امریکہ کا اسلحہ ہے۔ عمران خان نے کہا کہ حکمرانوں سے کہتا ہوں لوگوں کو گمراہ نہ کریں۔ غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہے ہیں کہ افغانستان میں یہ کر لیں گے وہ کر لیں گے۔ جب تک بیٹھ کر بات نہیں کریں گے دہشت گردی نہیں رکے گی۔ انہوں نے کہا کہ کرائم منسٹر ساری دنیا کی خوشامد کرتے پھر رہے ہیں۔ پاکستان کا وزیر خارجہ ساری دنیا کے چکر لگا رہا ہے اسے افغانستان جانا چاہئے تھا۔ عمران خان نے کہا کہ ہمارے دور میں زراعت میں کسانوں کے اچھے حالات تھے لیکن موجودہ حکومت نے معیشت پر توجہ نہیں دی اور آج پوری دنیا میں بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بیرونی سازش کے ذریعے گرایا گیا۔ خیبر پی کے حکومت تنہا دہشتگردوں سے نہیں نمٹ سکتی۔ کے پی کے حکومت کو دہشتگردی کے مسئلے پر اعتماد میں لیا جائے۔ ملٹری آپریشن کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اس سے بچنا چاہئے۔ افغانستان سے معاملات خراب ہوگئے تو دہشتگردی کا مسئلہ دوبارہ عذاب بن جائے گا۔ ماضی میں امریکی ڈرون حملوں میں ہلاکتوں کا بدلہ پاکستان سے لیا گیا۔ دریں اثناء وزیر اعلیٰ خیبر پی کیمحمود خان نے سمینار سے اپنے خطاب میں کہاکہ موجودہ حکومت کو امن و امان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ صرف کیسز ختم کرانے آئے ہیں۔ سیمینار سے مراد سعید‘ پرویز خٹک نے بھی خطاب کیا۔ اس کے علاوہ اپنے ٹویٹ میں عمران خان نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق جے آئی ٹی ممبران پر میرے خلاف قاتلانہ حملے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے نتائج سے خود کو دور کرنے کیلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ یہ میرے اس یقین کی مزید تصدیق کرتا ہے کہ مجھ پر قاتلانہ حملے کے پیچھے طاقتور حلقوں کا ہاتھ تھا۔ مزید براں عمران خان کی زیرصدارت اہم اجلاس ہوا۔ پی ٹی آئی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے ڈویژنل کوآرڈینیٹر شریک ہوئے۔ شاہ محمود قریشی‘ اسد عمر‘ اعظم سواتی‘ فواد چودھری نے بھی شرکت کی۔ عمران خان کو اسمبلی میں پارٹی کی کارکردگی پر بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا کہ اکیس بل پاس کرا کے اپوزیشن کو ایک بار پھر اسمبلی میں شکست دی۔ عمران خان نے پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کی کارکردگی کو سراہا۔علاوہ ازیں گزشتہ روز عمران خان سے تحریک انصاف کے رہنمائوں حماد اظہر‘ سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان‘ میاں شفیع‘ عباس شاہ‘ حسنین بہادر دریشک‘ عبدالحئی دستی‘ صوبائی وزیر افضل ساہی‘ سینیٹر علی ظفر‘ میاں اسلم اقبال‘ علی عباس شاہ‘ ہاشم جواں بخت نے ملاقات کی۔