غمِ زندگی

Jan 11, 2023

بلقیس ریاض


 بہت سال پہلے اےک اےسے لڑکے کی غمزدہ داستان اس کی ماں سے سنی،جس کی عمر پچےس سال تھی‘ بعد ازمرگ اپنی آنکھےں اور گردے بطور عطےہ دئےے اس کی ماں نے بتاےا‘ پاکستان مےں پہلی مرتبہ گردوں کے عطےہ سے دو زندگےاںبچا لی گئےں۔ 25سالہ طالب علم کی آنکھوں سے کسی کی بے نور آنکھوں مےں روشنی آگئی ےہ نوجوان اپنی مختصر سی زندگی مےں خون کے عطےات اور نقد عطےات سے لوگوں کو فائدے پہنچاتا رہا تھا اور اس کے اسی جذبہ کے پےش نظر اس کی والدہ نے باہمی رضامندی سے اس کی موت کے بعد اسکے گردے اور اس کی آنکھےں بطور عطےہ دے دئےے۔
25سالہ مختصر سی زندگی مےں وہ اس دنےا کو پوری طرح سمجھ ہی نہےں پاےا ہو گا نہ جانے اس کی والدہ نے کتنے سنہرے خواب اپنی آنکھوں مےں سجا رکھے ہونگے۔ مستقبل مےں بڑا آدمی بننے کے خواب ‘شادی اور آنے والے بچوں کے بارے مےں سوچا ہو گا اور بھی کئی خواہشات ہونگی۔ بڑھاپے مےں قدم قدم پر اولاد کی مدد کی ضرورت پےش آتی ہے اس کی ماں کو نہ جانے کتنی کمی محسوس ہوئی ہو گی ےہ اےسی خبر تھی کہ مےرا دل بھر آےا تھا اور مےں نے سوچا کتنا عظےم تھا وہ جوان بےٹا کہ اتنی چھوٹی سی عمر مےں انسانےت کا جذبہ اس کے اندر تھا ۔بڑی حےرت کی بات تھی کےونکہ نوجوانی مےں لڑکوں کو کم ہی انسانےت کی سوجھ بوجھ ہوتی ہے شاےد اس نے مر جانا تھا اتنی مختصر سی زندگی مےں وہ نےکی کما رہا تھا اس خاتون نے رورو کر مجھے اپنے دل کا حال بتاےا تھا اور ےہ بھی کہا تھا کہ سوائے اس کے بےٹے کے اس دنےا مےں کوئی آسرا نہےں تھا۔
کوئی تو ہو گا۔
مےرے پوچھنے پر وہ افسردگی سے بتانے لگی۔
اےک بےٹی ہے جو دور درا ز بےاہی ہوئی ہے اس کے سسرال والے اسے مجھ سے ملنے نہےں دےتے۔ ےہی کہتے ہےں کہ ہمارے ہاں بار بار مےکے جانا معےوب سمجھا جاتا ہے۔
آپ کا شوہر کہاں ہے؟ مےں نے پوچھا۔
اس کوکئی سال ہوئے ہےں وفات پائے ہوئے۔ صرف ےہی بےٹا تھا جو مےرا بہت خےال رکھتا تھا۔ اکثر کہتا تھا کہ ماں مےں دنےا بھر کی خوشےاں تمہاری جھولی مےں ڈالوں گا مجھے کےا معلوم تھاکہ مےرے بےٹے نے اتنی جلدی دنےا سے چلے جانا ہے۔
آپ اس کی مغفرت کی دعا کرےں۔
”خدا سے دعا مےں نہےں مانگوں گی تو اور کون مانگے گا مےرا بےٹا انشااللہ جنت مےں جائے گا‘اس سے مےں بہت ہی خوش تھی“ پھر بتانے لگی اےسی مائےں جن کے بچے فوت ہو گئے ہوں تو اگر ان کے دل کو چےر کر دےکھےں تو اس مےں داغ ضرور ہو گا وہ ماں آدھی تو اسی دن مر جاتی ہے جب بےٹے کی اےسی خبر سنتی ہے ےوں سمجھ لےں چلتی پھرتی لاش ہوتی ہے دنےا کی تمام امنگےں ختم ہو جاتی ہےں بس زندگی اس پر بوجھ بن جاتی ہے اب دےکھےں نا اےسے موقع پر بےٹی کو مےرے قرےب ہونا چاہےے تھا اےسے سسرال والوں کو کےا کہوں جو خدا خوفی بھول جاتے ہےں ہماری قوم بھی اےسی بے حس ہو گئی ہے اپنے گھروں مےں بےٹےاں بھی ہوتی ہےں مگر پھر بھی دوسروں کے دکھ اور بےٹےوں کا احساس نہےں ہوتا۔ ےہ نہےں سوچتے کہ ےہ بھی کسی کی اتنی ہی پےاری بےٹی ہے۔خدا اےسی ساسوں کو ہداےت دے۔ےہ نہےں سوچتے کہ اگر ہم کسی دوسرے کی بےٹی کے ساتھ اچھا سلوک کرےں گے تو ہماری بےٹی کے ساتھ بھی اگلے گھر جا کر اچھا سلوک ہی ہوگا ۔حےرانگی کی بات ےہ ہے کہ وہ لڑکا جس نے آنکھےں اور گردے کو عطےہ کرنے کا فےصلہ کےا تھا تو وہ اسی ملک کا باشندہ تھا اور ےہی پاکستان ہے جس مےں قدم قدم پر لوگ جھوٹ اور فرےب کا سہارا لےتے ہےں۔ کسی کی بھلائی کرنے کی بجائے لوٹ کھسوٹ کا سہارا لے کر پےسے بناتے ہےں۔ لےکن اسی دنےا مےں ان کاانجام بہت برا ہوتا ہے ۔سچ یہ ہے کہ ےہ ملک اگر قائم ہے تو اچھے لوگوں کی وجہ سے ہی قائم ہے۔جےسے اس لڑکے نے اپنی آنکھےں دے کر کسی بے نور کو روشنی دی اور اللہ کی خوشنودی حاصل کی ۔ اےسی ماﺅں کو دےکھ کر ان کی عظمت کو سلام کرنے کو دل کرتا ہے جنہوں نے اتنی اچھی تربےت اپنے بچوں کو دی۔

مزیدخبریں