استاد معمار قوم ہوتا ہے ۔ استا د کا پیشہ پیغمبری شیوہ ہے جس کا مقصد ہی انسان کی شخصیت سازی ہے۔ اساتذہ کسی بھی قوم کی تعمیر وترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیثت کے حامل ہیں۔نبی کریمؐ نے فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اسلام نے جہاں والدین ، اولاد ، رشتہ داروں اور ہمسایوں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اس پر علم اور صاحب علم کی اہمیت کو قرآن مجید فرقا ن حمید میں فرمایاکہ ’’ کیا جاننے والے اور انجان برابر ہیں؟ ‘‘اسی طر ح سورہ فاطر کی آیت نمبر 28میں اس امر کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ا س کے عالم بندے ہیں اور اسی طرح سورئہ مجادلہ کی آیت نمبر 11میں صاحبان علم کے درجات کا ذکر بھی کیا گیا ۔ شیخ قمر احمد خورشید نہ صرف ایک ماہر تعلیم ، سیاسی ، سماجی ، علمی و ادبی شخصیت تھے بلکہ محبت کے دیپ روشن کرنے کا فن انہیں بخوبی آتا تھا ۔ وہ ہمہ وقت فروغ تعلیم اور گندھارا کی دھرتی کے سنوار کے لیے متحر ک رہتے تھے ۔ وہ ٹیکسلا کے معروف اولین سیاسی شخصیت شیخ بابو خورشید کے ہونہار فرزند تھے ۔ ہماران کے ساتھ علیک سلیک 1990کی دہائی میں اس وقت ہوئی جب مرحومین ذوالفقار احمد اور اکبر عابد نے ٹیکسلا میں سکول کی بنیاد رکھی ۔ یہ علیک سلیک اس وقت برادرانہ تعلقات میں تبدیل ہوئی جب انہوں نے خود درسگاہ کی ذمہ داری سنبھالی اور اس طرح وہ آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن ٹیکسلاسے وابستہ ہوئے بعد ازاں شیخ صاحب کے کندھو ں پر ہماری تجویز پر ڈویژنل صدر اپسما پروفیسر ابرار احمد خان نے تنظیمی ذمہ داریاں سونپیںاور تادم مرگ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فلاح وبہبود کے لیے وہ دامے ، درمے ،قدمے اور سخنے خدمات تاریخ کاحصہ ہیں ۔ مرحوم نے مادیت پرستی اور نفسانفسی کے اس بے حس معاشرہ میں بڑا آدمی نہیں بلکہ بڑا انسان بن کر فعال کردار ادا کیا۔ پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن ٹیکسلا سٹی کے سالانہ اجلاس میں ماہرین تعلیم کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے آخری صدارتی خطاب میں کہاتھا’’ انسانیت سے دوستی اور فلاح وبہبود کے لیے خدمات سرانجام دینے کی ذمہ داری دوسری اقوام کی نسبت مسلمانوں کی زیادہ ہے کیونکہ ہمارے پیارے مذہب اسلام کا بنیادی درس ہی فلاح ، انسانیت اور خیر خواہی ہے ۔ انسانیت کی بے لوث خدمت کے لیے مسلمانوں کی قربانی انسان دوستی کے بیش قیمت جذبوں کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے اور انہیں دوسری اقوام سے ممتاز کرتی ہے ۔ اگر ہم نے اپنے معاشرے کو باوقار اور مفید بنانا ہے تو اس کا طریقہ فقط یہی ہے کہ انسان دوسروں کے کام آئے ۔ دوسری کی بھلائی کے لیے متحر ک رہے ، اسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے بھی تمام مسلمانو ں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے ۔ بلاشبہ دنیا میں سارے انسان مفاد پرست ، خود غرض نہیں ہوتے بلکہ انسانیت سے بے لوث محبت کرنے والے انسان بھی اس دھرتی پے بستے ہیں ۔ جو انسانیت کے تقاضوں پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہوکر انسانیت کا سر فخر سے بلند کردیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے ہماشرے میں موجود غربت ، مایوسی ، معاشی فکر ، احساس محرومی ، مہنگائی ، لاقانونیت ، کرپشن او رناگواری کی کیفیات لوگوں میں ذہنی افسردگی و دبائو کا باعث بن رہی ہیں ایسے حالات میں انسانیت سے محبت کرنے والوں کی خدمات کٹھن حالات کو آسان بنانے کا باعث بن سکتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وہ لوگ واقعی ہی بڑے باہمت ، قابل دادو ستائش ہیں جو دوسروں کے لیے وقت نکالتے ہوئے اپنی صلاحیتوںکا استعمال کرتے ہیں ۔ جس کی زندہ مثال خادم انسانیت مسیحا پاکستان عبدالستار ایدھی ہیں ۔ اگر ملک پاکستان میں دوچا ر ایدھی پیدا ہوجائیں تو معاشرے کے بیشتر مسائل حل ہو جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم سب یہ عہد کرلیں کہ اپنی استطاعت کے مطابق جہاں ضرورت پڑی اور موقع ملے تو دوسروں کی مدد کریں گے ۔ مجبور و بے کس کی خبر گیری ، غریب طلباء کی مدد، کسی غریب بیٹی کی شادی کا خرچ ، کسی بے روزگارکی نوکری کا انتظام ، کسی غریب کے علاج کا اہتمام اور موقع ملنے پر یتامیٰ کی سرپرستی اور دیگر نیکی کے چھوٹے چھوٹے کام یقین کیجیے! اس عمل سے آپ کی دنیا ہی بدل جائے گی ‘‘شیخ قمر احمد چند روز علیل رہنے کے بعد 29دسمبر کو اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے اور پسماند گان شیخ اختر محمود ، شیخ بابو افتخار احمد اور دیگر لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔آمین