انتظار سحر … جاوید انتظار
Pytislamabad@gmail.com
وفاقی دارالحکومت کے اہم ترین حلقہ این اے 47 اور این اے 48 سے مصطفی نواز کھوکھر آزاد حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔انکے افکار و نظریات الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے نہ صرف اسلام آباد بلکہ ملک کے طول و عرض میں ہر گھر تک پہنچ چکے ہیں۔ انکے انتخابی حلقوں کی غالب اکثریت کے خیال میں وہ دونوں سیٹوں سے کامیاب ہو جائیں گے۔وہ تعلیم یافتہ،سیاسی فہم و فراست ،دلیر اور حقائق و دلائل سے اپنا نقطہ نظر رکھنے والی قیادت کے طور پر عوام الناس کے دلوں میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔انہوں نے اپنے دونوں حلقوں کی عوام کے نام کھلا خط گھر گھر تقسیم کروایا ہے۔جس کے مندرجات میں ملک کے 75 سال کی داستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی و جاپان تباہ و برباد ہوگئے لیکن محض 20 سالوں میں نہ صرف یہ قومیں اپنے پیروں پر کھڑی ہوئیں بلکہ آج دنیا کی صفحہ اول کی صنعتی قوتوں میں شمار ہوتے ہوئے ہراول معیشتیں ہیں۔پاکستان جن حالات سے دو چار یہ کوئی چند سال یا عشروں کی کہانی نہیں بلکہ دہاہیوں کی منظم نا اہلی ،اشرافیہ کی اقتدار کی سیاست اور غیر سیاسی عناصر کی کاروبار مملکت میں غیر آئینی مداخلت کا نتیجہ ہے۔انکے خط کے اس پہلے پیرا گراف سے واضع ہے کہ انکی نظر میں ملکی معیشت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔جسکی وجہ ہمارا ملک اور عام آدمی کا معیار زندگی دنیا کے مقابلے میں قابل رحم حد تک نیچے گر چکا ہے۔جسے اوپر لانے کے لئے دانش ،حکمت اور قوت فیصلہ کی ضرورت ہے۔اپنے خط کے دوسرے پیرا گراف وہ لکھتے ہیں کہ گزشتہ تین سالوں میں ہر سیاسی جماعت نے اقتدار کے مزے لوٹے ہیں۔لیکن عوام کی حالت زار بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔پہلے تو ہم براعظم ایشیاء کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے اور اب ہم خطے کی دوڑ سے بھی باہر ہوچکے ہیں۔دنیا کی پہلی ایٹمی قوت کا مقابلہ آج افغانستان سے کیا جارہا ہے۔یہ سنگین حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم 8 فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات میں ہمارے مسائل کا ادراک رکھنے والی قیادت اور نمائندوں کا چناو کریں۔جو ان کو ختم کرنے کے لئے کی جانے والی ضروری اصلاحات سے چشم پوشی نہ کریں۔ہمارے سیاستدانوں کے کردار اور ریشہ دوانیوں نے آج سیاست کو ایک گالی بنا کر رکھ دیا ہے۔اس وجہ سے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عوام کے یقین اور امید کو توڑنے کے جرم میں عدلیہ،مقننہ،انتظامیہ اور سیاستدانوں سمیت سب برابر کے شامل ہیں۔آگے وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ میرے آزاد الیکشن لڑنے کی وجوہات میں سیاسی جماعتوں کی عوام بیزار سیاست اور اقتدار تک پہنچنے کے لئے اصول ،کردار اور آئین کی قربانی دینے کی روش ہے۔بند کمروں کے شرمناک فیصلوں نے 25 کروڑ عوام کو روند کر رکھ دیا ہے اور سیاسی جماعتیں محض نعرے بازی کر کے مراعات سے بھرپور حکومت حاصل کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں۔میں نے اپنے اصولوں اور غلط کو غلط کہنے پر سمجھوتا نہ کرنے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے سے دریغ نہیں کیا۔سیاست کے اس گندے تالاب میں اپنا دامن بچاتے ہوئے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ عوام کے حقوق اور حق بات کہتا رہوں۔اب میں اپنا کردار اور اصولی بیانیہ لے کر آپکے پاس آگیا ہوں۔کامیابی اور ناکامی خدا کے ہاتھ میں ہے۔لیکن عوام کا مقدمہ لڑنے کے لئے کوئی تو میدان میں ہو۔میرا یقین ہے کہ ایک دردمند پاکستانی کے طور پر آپ بھی ان حالات اور ملک جس ڈگر پر جارہا ہے اس سے اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے ازخود پریشان ہونگے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر کا عوام الناس کو لکھا گیا خط انکی سوچ،عزم ،قوت فیصلہ اور قائدانہ صلاحیتوں کا عکاس ہے۔این اے 47 اور این اے 48 میں مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی ،تحریک انصاف و دیگر جماعتوں میں انکے قد کاٹھ اور وڑن کا لیڈر دور دور تک نظر نہیں آتا۔ بقول علامہ اقبال :
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
سوچ دنیا کے کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے کی بنیاد ہوتی ہے۔جس کی سب سے بڑی مثال پاکستان ہے۔پاکستان بھی بننے سے پہلے ایک سوچ تھا۔۔اس سوچ نے تحریک کی شکل اختیار کر لی۔پھر قائد اعظم کی بااصول ،ولولہ انگیز ،دلیر اور اعلیٰ مرتبت قیادت نے 1947 میں دنیا کا نقشہ بدل دیا۔سوچ بدل جائے تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔