منگل کے روز میرا کالم بعنوان’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ شائع ہوا ، جس میں میں نے الیکشن کے فتنے کے چہرے سے نقاب نوچا۔ اس کالم کے ردعمل کے نتیجے میں پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی طرف سے ایک مکتوب ارسال کیا گیا۔ میرا فرض بنتا ہے کہ میں ان کا نقطہ نظر بھی پیش کروں۔ مکتوب میں لکھا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا، آٹھ فروری کو الیکشن ہونے ہیں لیکن ابھی تک صحیح معنوں میں کسی جگہ کوئی گہما گہمی دکھائی نہیں دیتی۔ سبھی سیاسی جماعتیں بے یقینی کی کیفیت میں ہیں اور ووٹ دینے والے بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن سکیورٹی ایشوز کی بات کر کے انتخابات کا التواء چاہتے ہیں تو دوسری جانب اچانک سینیٹ سے بھی الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد منظور کر لی گئی ہے۔ اگرچہ اس قرارداد کی ایسی قانونی حیثیت نہیں ہے کہ اس سے الیکشن ملتوی ہو سکیں، لیکن اس سے یہ سوال ضرور اٹھ رہا ہے کہ جب سب سیاسی جماعتیں انتخابات چاہتی ہیں تو پھرایسی سرگرمیاں کیونکر ہو رہی ہیں اور انتخابی عمل میں تاخیر کون چاہتا ہے۔ بلاول بھٹونے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی بھی قرارداد پاس کر لیں، الیکشن آٹھ فروری کو ہی ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی خاص طور پر الیکشن ضرور چاہتی ہیں۔ ادھر مسلم لیگ(ن) بھی الیکشن کے حق میں ہے لیکن جس طرح کا جو ش و خروش اور تیاریاں پارٹی کی طرف سے ماضی میں دیکھنے کو ملتی تھیں، آج اس میں کمی واضح محسوس کی جا رہی ہے۔ ن لیگ کی پنجاب میں ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ ایک مرتبہ پھر التوا ء کا شکار ہو گیا ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات ابھی تک طے نہیں پاسکے اور ٹکٹوں سے متعلق کئی حلقوں میں متعدد بار تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے ملک کی سیاسی فضا میں ایک خلا محسوس ہورہا ہے۔ ایسے میں بعض نئی سیاسی جماعتیں بھی میدان میں اتری ہیں جنہوں نے کئی علاقوں میں اپنی انتخابی مہم سے ہلچل پیدا کر رکھی ہے۔اس حوالے سے مرکزی مسلم لیگ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے حلقے میں پارٹی صدر خالد مسعود سندھو بھرپور الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ لاہور میں حافظ طلحہ سعید، حافظ عبدالرؤف، خالد نیک اور انجینئر حارث ڈار جیسے امیدوار میدان میں ہیں جبکہ پی پی 180 سے پروفیسر سیف اللہ خالد کی انتحابی مہم کے ہر طرف چرچے سنائی دے رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ استحکام پاکستان پارٹی کے امیدوار سے ہے اور محسوس ہو رہا ہے کہ یہاں کانٹے دار مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔
مرکزی مسلم لیگ نے کچھ عرصہ میں ملک بھر میں رفاہی سرگرمیوں کے ذریعے بہت تھوڑے عرصے میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔ جس طرح بھارت میں عام آدمی پارٹی کے بارے میں خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ انہوں نے عوام کیلئے ریلیف کا کام کیا اور نئی دہلی کی طرح دوسرے مختلف علاقوں میں چھا گئے، ایسے ہی مرکزی مسلم لیگ بھی بڑی تیزی سے عوام الناس میں اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ پاکستان بھر میں سستے تندور جہاں دس روپے کی روٹی فراہم کی جاتی ہے اور عوامی سہولت بازار جیسے منصوبے جہاں سبزیاں، کھانے پینے کی اشیاء اور دوسری ضروریات زندگی کی چیزیں سستے داموں مہیا کی جاتی ہیں، عوامی سطح پر زبردست مقبول ہوئے ہیں۔ لاہور، اسلام آباد اور کراچی سمیت جن شہروں میں بھی عام لوگوں نے ان منصوبوں سے فائدے اٹھائے ہیں، وہ ایم ایم ایل کے حق میں بڑھ چڑھ کر انتخابی مہم چلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ مرکزی مسلم لیگ نے حال ہی میں اپنا جو منشور جاری کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ روشنی کا سفر مرکزی مسلم لیگ کے سنگ، کے ٹائٹل سے جاری کردہ اس منشور میں اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام، عدل کی بنیاد پر حقوق کی فراہمی، 60 فیصد سے زائد نوجوانوں کو بھرپور ترقی کے مواقع فراہم کرنا، ماحولیاتی آلودگی سے پاک بجلی کی فراہمی، یکساں نظام تعلیم کے تحت طلباء وطالبات کو پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے تیار کرنا، صحت کی تمام تر سہولیات فراہم کرنا، امن و امان کے قیام، سود سے پاک پالیسیوں کی تشکیل، انفارمیشن ٹیکنالوجی کا حصول سب کے لیے یقینی بنانا، خواتین کو حقوق کی فراہمی اور عوام الناس کو صحت کی تمام سہولیات فراہم کرنا اس منشور میں شامل ہے۔
ایم ایم ایل کے منشور میں کہا گیا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اہلِ پاکستان ایک قوم کی حیثیت حاصل نہیں کر سکے۔ موثر اصلاحی و اخلاقی تربیت کے ساتھ پاکستان کی نظریاتی اساس کو راسخ کیا جائے گا اور یہ شعور پختہ کیا جائے گا کہ برصغیر کے مسلمان ایک قومی وحدت اور ہر عصبیت سے پاک ایک ملت ہیں۔ وطن عزیز پاکستان عالمی دباؤ کی وجہ سے اس وقت سخت مشکلات کا شکار ہے، معیشت تباہ حال ہے اور سودی قرضوں کی وجہ سے بے پناہ مسائل قومی سطح پر پیدا ہو گئے ہیں۔ ہم غریب و امیر کا فرق بڑی حد تک ختم کر کے عدل پر مبنی اسلامی معیشت قائم کریں گے۔ ملکی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے معاشی نظام ترتیب دیا جائے گا۔ سود کو ختم کیا جائے گا اور نئے قرضے نہیں لیے جائیں گے جبکہ پرانے قرضوں کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے حساب کتاب کر کے مسئلہ حل کیا جائے گا۔ جرات کے ساتھ مذاکرات کر کے ثابت کیا جائے گا کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے مقروض ہیں، کیوں کہ سود کے نام پر ظلم کرتے ہوئے وہ اصل قرض سے کئی گنا پاکستان سے وصول کر چکے ہیں۔ پاکستان کی آزادی اور آزاد معیشت کا یہی راستہ ہے۔ ہم تجارتی معاہدے سب قوموں سے کریں گے لیکن غلامی کسی کی نہیں کریں گے۔ پہلے سے موجود بنکوں کومکمل تجارتی ادارے بنادیا جائے گا۔ملکی صنعتوں کو فروغ دیا جائے گا اور چھوٹی صنعتوں کی طرف بہت زیادہ توجہ دی جائے گی۔ اسی طرح برآمدات کو بڑھایا جائے گا اور زیادہ تر درآمدات پر پابندی لگائی جائے گی۔ اشرافیہ و امراء کے لیے سامانِ تعیش پر مبنی درآمدات نہیں منگوائی جائیں گی۔ ناجائز ٹیکس ختم کیے جائیں گے اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ماحول کو ساز گار بنا یا جائے گا۔
مرکزی مسلم لیگ کے منشور میں کہا گیا ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کو شامل کر کے ہر پاکستانی کو پڑھے لکھے لوگوں کی صف میں شامل کیا جائے گا۔ یکساں نصاب تعلیم اور ایک طرز کے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں گے۔غریب اور امیر کے بچے ایک ہی معیار کے تعلیمی اداروں میں اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کریں گے اور سب مل کر پاکستان کا روشن مستقبل بنیں گے۔دینی علوم کو جدید تعلیم میں شامل کر کے پاکستان کے نظریاتی مستقبل کو محفوظ کیا جائے گا۔جامعات میں پڑھائے جانے والے پروفیشل ڈگریوں کے نصاب کو مارکیٹ اور صنعتوں کی ضرورت کے مطابق بنایا جائے گا تاکہ طلبا و طالبات پیش آمدہ چیلنجز سے نبٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہوں۔غریب آدمی کا بوجھ حکومت اٹھائے گی، تعلیم، صحت اور خوراک پر خصوصی سبسڈی دی جائے گی۔بے روزگار افراد کو کاروبار کے لیے تربیت کے ساتھ بلا سود قرضے بھی فراہم کیے جائیں گے۔ایک خاص آمدنی سے کم افراد کے لیے بجلی اور گیس کے بلوں میں خصوصی چھوٹ فراہم کی جائے گی۔غربت کے خاتمہ اور عام بندے کی زندگی آسان بنانے کے لیے زکوٰۃ و عشر اور صدقات کا نظام قائم کر کے مالی وسائل رکھنے والے محسن لوگوں پر مناسب بوجھ ڈالا جائے گا۔ نوجوانوں کے تیزی سے بیرون ملک جانے کا رجحان ختم کرنے کے لیے معاشی پالیسیوں کی اصلاح کی جائے گی۔ہنر مند افراد کی تیاری پر خصوصی توجہ ہوگی تاکہ یہ افراد نہ صرف روزگار کمائیں بلکہ زرمبادلہ کا بھی باعث بنیں۔پاکستان کو بعض نااہل حکمرانوں نے ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے رکھا ہے۔سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید علوم کو فروغ دیا جائے گا۔مرکزی مسلم لیگ آئی ٹی انفراسٹرکچر کے فروغ کیلئے آرٹیفیشل ٹاسک فورس قائم کرے گی، علاوہ ازیں انڈسٹری کا دیگر شعبہ جات کے ساتھ اشتراک، نیشنل سکل ڈویلپمنٹ پروگرام، ٹیکنالوجی پارکس، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، نصاب کی جدیدکاری اور شعبہ صنعت و شعبہ تعلیم کے مابین اشتراک کی فضاقائم کی جائے گی۔
مرکزی مسلم لیگ کے منشور میں قانون و انصاف کی حکمرانی، دہشت گردی کے خاتمہ، کشمیر یوں کی حمایت، اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے، کسانوں کو خوشحال بنانے کے لیے زراعت، سستی بجلی کے منصوبوں، مفت علاج کی سہولیات سے آراستہ معیاری ہسپتالوں کے قیام، سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے پسماندہ علاقوں کی ترقی، تعلیم اور روزگار کے بھرپور مواقع، کھیلوں کے فروغ، خواتین و اقلیتوں کے حقوق اور دوسرے مسائل سے متعلق بھی تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ یہ منشور ہر لحاظ سے بہترین اور سبھی پارٹیوں سے بہت عمدہ ہے۔ اللہ کرے کہ مرکزی مسلم لیگ کی قیادت کو موقع ملے کہ وہ اپنے اس منشور کے مطابق وطن عزیز پاکستان کو درپیش سیاسی، معاشی و معاشرتی مسائل سے چھٹکارا دلانے، نظریہ پاکستان اجاگر کرنے اور مدینہ کا معاشرہ قائم کرنے جیسی کاوشوں میں کامیاب ہو سکے۔
٭٭٭