لکشدیپ جزائر اس لیے بھی پاکستان کا حصہ نہ بن سکیکہ اس طرح سے نوزائیدہ مملکت پاکستان کی طرف سے اسے اپنا حصہ بنانے کی کوشش نہ کی گئی جو اس کی متقاضی تھی۔ لکشدیپ جزائر آج بھارت کا حصہ ہیں جہاں کے باسیوں کی تعداد65ہزار ہے اور90فیصد سے زائد مسلمان ہیں۔ تقسیم کے موقع پر یہی پاکستان کا ان جزائر پر دعوے کا جواز بنتا تھا۔ حالیہ دنوں نریندر مودی نے اس علاقے کا دورہ کیا تھا۔ لکشدیپ جزائر پر کسی بھی دوسرے ملک کا دعویٰ نہیں رہا مگر مودی کے دورے کے دوران مالدیب کے تین وزراء کی طرف سے مودی کو کلون کہہ کر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ آج کل معیزو مالدیب کے صدر ہیں ، انہوں نے انتخابی مہم کے دوران دعویٰ اور وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے جزیرے سے سمندری طیارے چلانے والے بھارتی فوجیوں کے چھوٹے دستے کو بھی ہٹا دیں گے۔ یہ جزیرہ مالدیب کے شمالی کونے میں واقع ہے۔شاید یہ وعدہ پورا نہ کرنے پر معیزو کے بجائے ملشا شریف، عبداللہ مخرون اور شیونا نے مودی کو آسان ہدف سمجھ لیا۔ یہ جزیرہ مالدیب کے شمالی کونے میں واقع ہے۔ بھارت کی طرف سے مذکورہ وزراء کے رویے پر بھارت نے باقاعدہ احتجاج کیا تو معیزو اپنے پاؤں پر کھڑے نہ رہ سکے اور ان تینوں وزراء کو کابینہ سے نکال دیا۔
لکشدیپ کے محل وقوع اور جغرافیے پر سرسری سی نظر دوڑاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جزائر لکادیپ اور لکشدیپ بحیرہ عرب میں واقع کئی جزائر کا مجموعہ ہے۔ جن کا کل رقبہ32مربع کلو میٹر ہے۔ یہ جزائر بھارت کی ریاست کیرالہ کے ساحل سے 200سے 300 کلومیٹر دور واقع ہیں۔
جزائر لکشدیپ کی کل آبادی6ہزار595ہے جبکہ دارالحکومت کواراتی ہے۔ریتلے ساحل، نیلگوں پانی اور انتہائی دلکش کورل ریفس (مرجان راک) کے لیے مشہور لکشدیپ کو سیاحوں کے لیے تیار کیے گئے بروشرز اور اشتہاری مواد میں 'جنت کے جزائر' یا 'زمرد کے جزائر' بھی کہا جاتا ہے اور عمومی طور پر یہ خبروں میں زیادہ نمایاں جگہ نہیں حاصل کرتے۔
عظیم مسلم سیاح ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں جزائر لکشدیپ کاذکر کیا ہے۔1787ء میں ان جزائر پر ٹیپو سلطان کی حکومت قائم ہوئی اور تیسری جنگ میسور کے بعد یہ برطانیہ کے قبضہ میں آ گئے۔
اس کے باشندے کیرلا کے لوگوں سے نسلی مشابہت رکھتے ہیں۔ 8ویں صدی سے یہ جزیرے اسلام کے زیر اثر رہے ہیں۔ 1498ء میں پرتگیزیوں نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کیا۔ لیکن یہاں کے باشندوں نے ان کو وہاں سے نکلوا دیا۔ 1787ء میں جزیرہ امین سمیت کچھ جزیرے ٹیپو سلطان کے زیر حکومت رہے۔لکشدیپ میں کل39جزیرے ہیں۔ ان میں دس جزائر میں آبادی ہے اور 17 جزیرے غیر آباد ہیں۔ کواراتی، منیکوئی، امینی، اگاتی وغیرہ اہم جزیرے ہیں۔
لکشدیپ کی اہم پیداوار ناریل ہے۔2598 ہیکٹیر اراضی پر ناریل کی زراعت ہے۔ لکشدیپ کے جزائر دو طرح کے ہیں آباد جزائر اور غیر آباد جزائر۔ آباد جزائر میں اگاتی، امینی ، آندروت، بنگارم، بیترا، چیتلات، کڈامت،کواراتی، کلپینی، کلتان، منیکوئی وغیرہ ہیں۔
غیر آباد جزائر میں کلپِٹی، تناکرا، چیریا پرلی، ولیا پرلی، پکشی پٹی(طیوری پناہ گاہ)، سوہیلی ولیاکرا، سہیلی چیریا کرا، تلاکم، کوڈی تلا، چیریا پٹی، ولیا پٹی، چیریام ، ورنگلی، ولیا پانی، چیریا پانی وغیرہ اہم ہیں۔نویفیصد آبادی مسلمان ہے۔
لکشدیپ کی زبانوں میں ملیالم، جزری اور محل زبان اہم ہیں۔ شمالی جزائر کے لوگ عام طور پر ملیالم اور جزری بولیاں بولتے ہیں۔ جنوب میں واقع منیکوئی کے لوگ محل زبان بولتے ہیں جو دیویہی زبان کی بولی ہے۔
بھارتی حکومت اس علاقے کو سیاحتی سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے سیاحوں کی دلکشی کے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مگر یہ علاقہ اب تک نظر انداز کیا گیا تھا۔ بھارت اس علاقے کی خوبصورتی کو کیش کرانا چاہتا ہے۔ جس کی مقامی لوگوں کو بھاری قیمت بلکہ نا قابل قبول اور ناقابل برداشت قیمت ادا کرنا پڑرہی ہے۔ پرافل پیٹل کو ان جزائر کا ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا گیا تھا۔ ان کے کچھ اقدامات سے کشیدگی پیدا ہوئی جس پر احتجاج اور مظاہرے کئے گئے۔ ایڈمنسٹریٹر کی طرف سے پالیسی دی گئی جس کے تحت جزیرے کی زمین کے کسی بھی حصے کو تعمیراتی مقاصد کے لیے حکومت قبضے میں لے سکتی ہے۔ مقامی لوگ اسے ان کو بے گھر کرنے کا منصوبہ سمجھتے ہیں۔
پرافل کھودا پیٹل ان جزائر کو بھی مالدیب جیسا سیاحتی علاقہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر کا یہ حکم لکشادیپوں کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہو گیاکہ مسلم اکثریتی آبادی کے جزائر میں گائے کے ساتھ بھینس ذبح کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی جبکہ1979ء میں شراب نوشی اور فروخت پرعائد کی گئی پابندی اٹھا لی گئی۔ ایسے اقدامات اور احکامات کی بنا پر ایک رائے پائی جاتی ہے کہ بھارت ان جزائر کو دوسرا کشمیر بنانا چاہتا ہے۔ آج کل ہونے والے احتجاجوں اور مظاہروں سے حالات تیزی سے اسی طرف جارہے ہیں۔مزید براں ایک ’اینٹی سوشل‘‘ قانون بھی متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت پولیس لوگوں کو کوئی قانونی مدد حاصل کرنے کی سہولت کے بغیر ایک سال تک قید رکھ سکتی ہے۔
تقسیم ہند کے طے شدہ اصول کے مطابق مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان کا حصہ بننا تھا اس کے تحت جزائر لکشدیپ پاکستان میں شامل ہوناتھے اور یہ مشرقی پاکستان کے قریب تھے۔فرائیڈے ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے۔ لیاقت خان کی طرف سے ان جزائر کو پاکستان کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسکے ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان نے ان جزائر کو 1947ء میں اپنا حصہ بنانے کا موقع کھو دیا۔ پاکستان کی اس بھول، غلطی یا بلنڈر کا خمیازہ جزیروں کے باسی مسلمان بھگت رہے۔ رپورٹ میں سب سے زیادہ ذمہ دار مدارس کی مسلم لیگی قیادت کو قرار دیا گیا جس کی طرف سے یہ معاملہ شدو مد سے اٹھانے کی ذمہ داری بنتی تھی۔
٭…٭…٭
لکشدیپ ہمارا ہے!
Jan 11, 2024