دیکھو دیکھو کون آیا۔
لطیف کھوسہ کو دیکھ کر بلاول کا نعرہ۔
جب سرراہ کسی ہمدم دیرینہ سے ملاقات ہو جائے تو ایسی ہی وارفتگی کا اظہار ہوتا ہے۔ لطیف کھوسہ عرصہ دراز تک پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے، آصف زرداری اور بلاول کو اپنا قائد تسلیم کرتے رہے۔ آصف زرداری کے کئی اہم مقدموں میں جن میں ایان علی ڈالرز کیس بھی شامل تھا، ان کے وکیل رہے۔ آج کل وہ کپتان کی زلفوں کے اسیر ہیں اور زرداریوں سے دور ہیں۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں بھٹو کیس کی سماعت کے موقع پر ان کی اچانک بلاول سے احاطہ عدالت میں مڈبھیڑ ہوئی۔ بلاول نے انہیں دیکھا تو بے ساختہ پکار اٹھے دیکھو دیکھو کون آیا۔ شکر ہے اس جذباتی نعرے کے جواب میں وہاں موجود لوگوں نے شیر آیا شیر آیا یا کوئی اورآیا نہیں کہہ دیا ورنہ بدمزگی پیدا ہو جاتی۔ اس موقع دونوں گلے ملے مسکراتے ہوئے اور ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا۔لوگ یہ صورتحال دیکھ کر لطف اندوز ہوتے رہے۔ چلو اس طرح تلخ ماحول میں جو ہماری سیاست کا خاصہ ہے کوئی تازہ ہوا کا جھونکا تو آیا۔ اس لیے ہمارے سیاستدانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ سدا نہ دشمنی رہتی ہے نہ دوستی۔ ہر وقت ایک دوسرے پر لعن طعن کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ جنگ اپنی جگہ صلح اپنی جگہ۔ مل جل کر ہی سیاسی میدان میں آگے بڑھا جاتا ہے ورنہ سیاسی نظام سے لوگ اس لیے بدظن ہیں کہ کل تک ایک دوسرے کو برا کہنے والے وقت پڑنے پر دوست کیسے بن جاتے ہیں۔ الزام تراشی کرتے وقت محتاط کیوں نہیں رہتے کہ کبھی ، اگر ملنا بھی پڑے تو ا چھے طریقے سے مل سکیں۔
٭٭٭٭٭
مسلم ریاستیں ہمیں اسلحہ دیں- حماس سربراہ۔
کچھ باتیں یا خواہشیں ایسی ہوتی ہیں جن کا پورا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر فی الحال حماس کے سربراہ کی یہ معصوم خواہش کسی صورت پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی کیونکہ مسلم ممالک میں وہ ایمانی طاقت نہیں ہے کہ وہ ان کی یہ خواہش پوری کر سکیں۔ عالمی سیاست، عالمی مفادات عالمی تجارت عالمی تعلقات نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو اسرائیل کی کیا مجال کہ وہ یوں فلسطینیوں کا قتل عام کرتا پھرتا اور مسلم ممالک خاموش رہتے۔ مسلم ممالک حماس کو اسلحہ کیا فراہم کریں گے وہ تو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں۔ امریکہ جو اسرائیل کا مائی باپ ہے اس کی مرضی کے بغیر تو یہ ممالک غزہ میں خوراک اور طبی امداد تک فراہم نہیں کر سکتے۔ اس کے برعکس دیکھ لیں تمام مغربی ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اسے اسلحہ کی فراہمی پر متفق ہیں کیونکہ امریکہ برطانیہ یہ کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ تو ایک بیوہ عورت کی طرح مجبور کھڑی بے بسی سے تماشہ دیکھ رہی ہے۔ وہاں پیش ہونے والی ہر قرارداد امریکہ ویٹو کر دیتا ہے۔ بڑی طاقتیں ایسے اجلاسوں میں شرکت ہی نہیں کرتیں جس میں اسرائیل کے خلاف قرارداد لائی گئی ہو۔
تو جناب اس صورتحال میں مسلم ممالک کیا کر سکتے ہیں۔ خود فلسطین کے پڑوسی عرب ممالک حیران و پریشان ہیں کہ کس طرح غزہ تک امدادی سامان پہنچائیں جو اس وقت قبرستان بن چکا ہے۔اگر مسلم ممالک اسرائیل کی صرف معاشی و تجارتی ناکہ بندی کرنے کی کوئی صورت نکالیں تو یہی بہت بڑی بات ہو گی۔ اسرائیل کے سرپرستوں کو تجارتی بائیکاٹ اور تیل کی فراہمی بند کرنے کی دھمکی ہی بہت سے مسائل کا حل ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر افسوس ایسا کون کرے۔ سب کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں۔
٭٭٭٭٭
گندم کی 5 لاکھ 14 ہزار بوریاں غائب کرنے پر محکمہ خوراک سندھ کے 12 ملازمین برطرف۔
جی ہاں یہ انوکھی واردات بھی سندھ میں ہوئی جہاں ایسے انہونے واقعات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ 5 لاکھ 14 ہزار بوریاں جو گندم سے بھری تھی پلک جھپکتے ہی چھومنتر کہہ کر غائب تو نہیں ہوئی ہوں گی نہایت اطمینان سے پوری پلاننگ کے تحت یہ ہزاروں من گندم محکمہ خوراک کے افسران و ملازمین کی ملی بھگت سے چوری کر کے بلیک میں فروخت کی گئی ہو گی۔ اس وقت جب ملک میں پہلے ہی آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کنٹرول نہیں ہو رہیں ہر طرف ہا ہا کار مچی ہوئی ہے، اس خبر سے پتہ چلتا ہے کہ اس ساری صورتحال کے ذمہ دار محکمہ خوراک کے چور ملازم اور افسر ہیں۔ یہ تو صرف ایک کیس ہے جو سامنے آیا ہے۔ پورے ملک میں محکمہ خوراک کی چور بازاری اور بدعنوانیوں کے بارے میں اگر تفصیلی رپورٹ سامنے لائی جائے تو کئی جلدوں پر مشتمل کتا ب مرتب ہو سکتی ہے۔ لاکھوں من گندم گوداموں میں یا کھلے آسمان تلے برباد ہونے کی کہانیاں، لاکھوں من گندم چوہوں کے کھا جانے کی کہانیاں اور گوداموں سے چوری ہو جانے کے قصے سْن کر تو لگتا ہے ملک میں گندم اور آٹے کی قلت کی وجہ محکمہ خوراک ہی ہے جہاں ہر قدم پر چور لٹیرے اور ڈاکو بیٹھے ہیں جنہوں نے 22 کروڑ عوام کو وختے میں ڈال رکھا ہے۔ اب ایسے کالے چوروں کو قرار واقعی سزا دینا ضروری ہے۔ صرف معطل کرنا یا برطرف کرنا علاج نہیں۔ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا جو انہوں نے کھایا ہے وہ ان کے پیٹ پھاڑ کر نکلوانا ہو گا تاکہ دوسروں کو بھی عبرت ہو اور کوئی دوبارہ ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ کرے۔ جنہوں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں ان کے ہاتھ کاٹنے کے ساتھ وصولیاں بھی ان سے کی جائیں۔
٭٭٭٭٭
پی ٹی آئی میں ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلاف 4,4 کروڑ میں فروخت کے الزامات۔
پارٹی کوئی بھی ہو جب الیکشن کے ٹکٹ تقسیم کرتی ہے تو اس میں اختلاف سامنے آتے ہیں۔ نون لیگ ہو یا پی پی پی یا پھر پی ٹی آئی، کہیں بھی یہ کام آرام سے نہیں ہوتا۔ شور شرابا دھینگا مشتی ہوتی نظر آتی ہے۔ ہاں البتہ اس وقت پی ٹی آئی شتربے مہار بنی ہوئی ہے اس کا کپتان موجود نہیں نئے ڈرائیور سے یہ گاڑی سنبھالی نہیں جا رہی سچ کہیں تو ہر ایک اسے اپنی نہج پر لے جانے میں کوشاں ہے۔ خیبر پی کے میں کئی کامیاب انٹرویو دینے والے سراپا احتجاج ہیں کہ انہیں ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا وہ اسلام آباد میں دھونی جمائے بیٹھے ہیں جسے اردو میں دھرنا دیناکہتے ہیں۔ کھل کر کہا جا رہاہے کہ ٹکٹ 4 کروڑ میں فروخت ہو رہا ہے۔ اب خدا جانے حقیقت کیا ہے کبھی کبھی تو گرمئی بازار کے لیے بھی ایسے بیانات جاری ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پہلی بار نہیں بک رہے پہلے بھی کروڑوں میں فروخت ہوتے رہے ہیں مگر تب بات اور تھی تحریک کی گڈی چڑھی ہوئی تھی۔ اس وقت بات کچھ اور ہے۔ اس وقت
نہ کوئی امنگ ہے نہ کوئی ترنگ ہے
میری زندگی ہے کیا، اک کٹی پتنگ ہے
والی کیفیت ہے۔ خود پی ٹی آئی کے امیدوار بھی پریشان ہیں۔امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ کہیں سے کوئی چمتکار ہو جائے اور کوئی آ کر ان کا ہاتھ تھام لے مگر شومئی قسمت سے ماضی کے واقعات پیر تسمہ پا بن کر ان کے گلے سے چمٹے ہوئے ہیں اور قدم قدم پر انہیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اوپر سے بات بات پر بے وجہ کی بیان بازی نے بھی بہت سے معاملات خراب کر رکھے ہیں اس لیے کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو۔
٭٭٭٭٭٭