عام انتخابات کے انعقاد میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے مگر تاحال سیاسی گہما گہمی ندارد ہے۔سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اس طرح کا جوش جذبہ دکھائی نہیں دے رہا جو ماضی کا خاصہ رہا ہے۔ انتخابات کا دنگل بجنے سے تقریباً ایک سال قبل ہی ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم کا آغاز ہوجاتا تھا اسی طرح ہر حلقے میں امیدواران بھی متحرک دکھائی دیتے تھ مگر اس بار عوام کیساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے لیڈرز بھی گومگو کیفیت کا شکار ہیں کہ الیکشن 8 فروری کو ہوتے بھی ہیں کہ نہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن ہر صورت 8 فروری کو ہونے کی یقین دہانیوں کے باوجود سینٹ آف پاکستان سے پلک جھپکتے عام انتخابات ملتوی کرنے کی ایک قرارداد منظور کرلی جاتی ہے۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمان مسلسل میڈیا پر عام انتخابات ملتوی کرنے کے بیانات داغتے دکھائی دیتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لینے اور عدالتوں سے واپس ملنے کی آنکھ مچولی ابھی جاری ہے۔ گزشتہ روز پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو بلے کا نشان واپس کرنے کے فیصلے نے سیاسی صورتحال ایک بار پھر تبدیل کردی ہے جبکہ الیکشن کمیشن بھی اس معاملے پر ہار ماننے کی بجائے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس طرح پی ٹی آئی پر بلے کا انتخابی نشان واپس لئے جانے کی تلوار ابھی مزید ایک ہفتہ لٹکتی دکھائی دیتی ہے جبکہ الیکشن میں اب دنوں کا وقت باقی رہ گیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں صاف و شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کیلئے بلی چوہے کا یہ کھیل اب ختم ہونا چاہئے اور اگلی حکومت کے چناؤ کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے اس سے ملکی سیاسی و اقتصادی صورتحال پر چھائے دھند کے بادل چھٹ جائینگے۔ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھی زمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اداروں پر کسی قسم کی بھی الزام تراشیوں اور محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ وطن عزیز کسی قسم کی محاذ آرائیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کا قانون کالعدم قرار دیا جانا بھی نہایت خوش آئند فیصلہ ہے۔ قطع نظر اس کے کہ تاحیات نااہلی ختم ہونے سے کس کس کو فائدہ ہوا، اس فیصلے کے ملکی سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ دوسری جانب اگر انتخابی ماحول کی بات کی جائے تو سیاسی جماعتوں اور انکے امیدواروں کے ساتھ ساتھ ووٹرز کی بڑی تعداد کو ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں اسی وجہ سے تاحال الیکشن کا ماحول دکھائی نہیں دے رہا۔ امیدواران گرم جوشی سے کمپین نہیں کر رہے ہیں اورنہ ہی امیدواروں کے سپورٹرز اور ووٹرز زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں دوسری جانب مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی سیاسی جماعتیں امیدواران کے ناموں کا اعلان نہیں کر پائیں جس کی وجہ سے امیدوار ابھی تک ٹکٹ کے حصول کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ امیدواران تاحال اپنی انتخابی مہم چلانے میں کم، ٹکٹ کے حصول کی کوشش میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ سابق اراکین اسمبلی بھی کھل کر سامنے نہیں آرہے۔ پنجاب میں اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن ، پی ٹی آئی کے درمیان متوقع ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک لبیک بھی اچھا ووٹ بنک رکھتے ہیں اب جبکہ پی ٹی آئی بلے کا انتخابی نشان پشاور ہائیکورٹ سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اگر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو بھی بلے کے نشان پر الیکشن میں حصہ لینے کا موقع مل گیا تو پھر انتخابی ماحول بننے کے امکانات زیادہ ہو جائیں گے۔ اگرچہ بانی پی ٹی آئی عمران خان خان ،مخدوم شاہ محمود قریشی، چوہدری پرویز الٰہی سمیت فرنٹ لائن قیادت کے کاغذات ہی مسترد ہوگئے ہیں تاہم، اپیلوں کی سماعت جاری ہے اپیلوں کے فیصلے آنے تک ساری صورتحال واضح ہوگی مگر قائم مقام چیئرمین پی ٹی آئی نے کسی صورت بھی انتخابی میدان خالی نہ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ چاہے "انڈر 19" یعنی دوسری اور تیسری لیول کے امیدواران کیساتھ میدان میں اترنا پڑا ہر صورت مقابلہ کرینگے۔انتخابی ماحول نہ بننے کیوجہ سے انتخابات میں عروج پر پہنچنے والی کاروباری سرگرمیاں بھی مانند پڑی ہیں۔ گل محلوں میں امیدواران کے دفاتر کھل رہے ہیں، کارنر میٹنگ ہورہی ہیں نہ پوسڑز اور پینا فلیکس کی بھرمار دکھائی دے رہی ہے۔ پینا فلیکس، سٹیکرز، پوسڑز کا کاروبار کرنے والے بھی حیران ہیں جو آرڈر نہ ملنے کی وجہ سے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں ، لیکن 13 جنوری کو سیاسی جماعتوں کے امیدواران کی ٹکٹیں کنفرم ہونے کے بعد انتخابی گہما گہمی میں تیزی کیساتھ اضافہ متوقع ہے۔ اسوقت تک بیشتر روائتی امیدوار جو پارٹی سے ٹکٹ کی امید رکھے ہوئے ہیں ان میں سے بڑی تعداد ایک پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں کسی دوسری پارٹی کا ٹکٹ بھی لیتے دکھائی دینگے۔ یہی صورتحال اسوقت ملتان کے مختلف حلقوں میں بھی موجود ہے اس لئے سیاسی جوڑ توڑ ان دو تین دنوں عروج پر ہوگا جسکے بعد ہی حلقہ وائز پارٹی پوزیشن واضح ہوگی۔ اسوقت پارٹی ٹکٹ کیلئے سب سے زیادہ دباؤ پاکستان مسلم لیگ ن پر ہے ،ملتان کے ہر حلقے میں امیدواران کی تعداد زیادہ ہونے اور امیدواران کی آپس کی دھڑے بندیوں کی وجہ سے قیادت کو ٹکٹ جاری کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ ملتان کے متعدد حلقوں میں مسلم لیگ ن کے امیدواران ٹکٹ کے حصول کی اندرونی جنگ میں مصروف ہیں، این اے 148 میں احمد حسن ڈیہٹر اور بوسن گروپ گرین سگنل، ملنے کے منتظر ہیں معلوم ہوا ہے سابق وفاقی وزیر حاجی سکندر حیات بوسن کے چھوٹے بھائی و سابق ایم پی اے شوکت حیات بوسن پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ملک احمد حسن ڈیہڑ کے ساتھ پی پی 213 پر ایم پی اے کا الیکشن لڑیں گے جبکہ انکا دوسرا ونگ شہزاد مقبول بھٹہ ہونگے۔ ذرائع کے مطابق حاجی سکندر حیات بوسن کو بعد میں سینٹ میں ایڈجسٹ کرنے کی یقین دھانی کرائی گئی ہے وہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے کیونکہ جن 25 پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی نے پارٹی سے انحراف کر کے پی ڈی ایم کی حکومت بنوائی تھی ان میں ملک احمد حسن ڈیہڑبھی شامل تھے اس وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن ان ممبران کو ایڈجسٹ کر رہی ہے اسی وجہ سے حاجی سکندر حیات بوسن کی بجائے احمد حسن ڈیہڑ کو ترجیح دی جارہی ہے اس حلقہ این اے 148 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی میدان میں ہیں۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن این اے 149 میں استحکام پاکستان پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے جارہی ہے جس کی وجہ سے اس حلقے سے آئی پی پی کے چیئرمین جہانگیر خان ترین امیدوار ہوں گے۔ این اے 150 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک غفار ڈوگر، پاکستان پیپلز پارٹی سے سید علی موسیٰ گیلانی اور تحریک انصاف سے مخدوم زین قریشی یا مہربانو قریشی کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کے ملتان سے 3 حلقوں سے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کردیے گئے جسکے خلاف انہوں نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں نئے شامل ہونے والوں کو ترجیح دینے پر دیرینہ کارکن اضطراب کا شکار ہیں وہ سالہا سال سے پارٹی میں رہ کر پارٹی کے لئے خدمات انجام دیتے رہے ہیں انہیں عین موقع پر نظر انداز کرنے سے وہ نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے کچھ سابق اراکین اسمبلی ایسے بھی ہیں جو دباؤ کے باعث آزاد حیثیت میں انتخابی میدان میں اترنے کے خواہشمند ہیں لیکن وہ ابھی الیکشن ماحول بننے کا انتظار کر رہے ہیں ، آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کا مقصد یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کا زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کر سکیں دوسرا یہ وہ بطورِ امیدوار حلقے میں موجود رہیں اور پی ٹی آئی کے ووٹ بنک بھی انکے کھاتے میں برقرار رہے۔ تاہم اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن کے لیے سب سے زیادہ متحرک ہے وہ نا صرف الیکشن ملتوی کرنے یا تاخیر کرنے کی مخالفت کر رہی ہے بلکہ باقاعدہ کمپین بھی شروع کر رکھی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے جلسوں کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری بھی متحرک ہیں وہ جوڑ توڑ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اس ضمن میں رواں ہفتے انہوں نے ملتان کا دورہ کیا بلاول ہاؤس میں امیدواروں پارٹی عہدیداران کے علاوہ پارٹی ورکرز سے بھی ملاقاتیں کیں انہیں متحرک کیا اس موقع پر کافی بڑی تعداد میں ٹکٹ ہولڈرز اورمختلف پارٹی کے امیدواروں وعہدیداران نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی ذوالفقار علی بھٹو شہید کی سالگرہ کا کیک بھی کاٹا گیا۔ ملتان میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ان کے بیٹے سید عبدالقادر گیلانی، سید علی موسیٰ گیلانی اور علی حیدر گیلانی خاصے متحرک ہیں انہوں نے اپنے اپنے حلقوں میں باقاعدہ کمپین شروع کر رکھی ہے وہ دن رات حلقوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں سرپرائز دے گی، کوئی بھی حکومت پیپلز پارٹی کے بغیر نہیں بن سکتی، لیول پلیئنگ فیلڈ سب کیلئے برابر ہونی چاہئے۔
جماعت اسلامی نے بھی ملتان کے مختلف حلقوں کیلئے اپنے امیدواران کے ناموں کا اعلان کردیا ہے اور جماعت اسلامی کے امیدواران نے بھی انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ اس ضمن میں امیر جماعت اسلامی جنوبی پنجاب راؤ محمد ظفر اور ڈاکٹر صفدر ہاشمی امیر جماعت اسلامی ملتان کے مطابق انجینئر عاطف عمران کو این اے 148، ڈاکٹر صفدر ہاشمی کو این اے 149 ،این اے 150 پر کاشف گجر،این اے 151 ملک بلال اعوان ،این اے 152 پر مولانا عبدالوحید اختر ،این اے 153 پر اظہار الحق کو ٹکٹ دیا گیا۔پی پی 213 پر رائے سلیم کھرل،214 خواجہ صغیر 215 پر میاں آصف اخوانی ،پی پی 216 حافظ اسلم، 217 پر آصف راجپوت ،218 شیخ مقصود اقبال کو ٹکٹ جاری کیا گیا۔ پی پی 219 پر امجد نواز،220 پر عامر شاہ، 221 پر میاں عمران ،222 ڈاکٹر اشرف،پی پی 223 پر رشید حسام،224 پر شاھد بلوچ کو ٹکٹ جاری کیا گیا۔
انتخابی معرکوں میں ماضی جیسا جوش و جذبہ دکھائی نہیں دے رہا
Jan 11, 2024