سیاحت و ماحولیات کو فروغ
٭…صفائی اور شجرکاری کے کلچر کو عام کیا جائے گا۔
٭…ملک بھر میں پبلک بیت الخلاء اور وضو خانے بنائے جائیں گے۔
٭…شمالی علاقہ جات، اپردیر، سوات، گلگت بلتستان، چترال نیز سندھ، بلوچستان، پنجاب اور آزاد کشمیر کے سیاحتی مقامات کو ترقی دی جائے گی۔
٭…سیاحت کے فروغ کے لیے شاہراہیں اور رابطہ سڑکیں تعمیر کی جائیں گی اور ان کے نام رکھے جائیں گے۔
٭…سیاحتی مقامات پر موجود مقامی آبادیوں اور مکینوں کی ترقی و خوشحالی کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کی جائے گی۔
٭…سیاحتی مقامات کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں گے۔
٭…سیاحتی علاقوں تک جدید ٹرانسپورٹ کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔
٭…سیاحتی مقامات پر سکیورٹی اور قیمتوں کے تعین و کنٹرول کا نظام قائم کیا جائے گا۔
٭…ہوٹل انڈسٹری کو ٹیکس مراعات دی جائیں گی۔
٭…صوبہ خیبر پختونخواہ میں سوات، چترال، دیر اور مانسہرہ جبکہ صوبہ سندھ میں ’’گورکھ ہل‘‘ کو عالمی معیار کے سیاحتی مراکز بنایا جائے گا۔
٭…ماحولیاتی آلودگی کے سدباب، کنٹرول اور تحفظ ماحول کے لیے سخت قوانین سازی اور ان پرمؤثر عمل درآمد کروایا جائے گا۔
٭…گاڑیوں اور صنعتوں سے زہریلی گیسوں اور صنعتی فضلہ جات کو ٹھکانے لگانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔
٭…الیکٹرک انجنوں والی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
٭…نئے جنگلات لگانے کے لیے بڑے پیمانے پر شجرکاری مہمات چلائی جائیں گی اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قوانین پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
٭…جنگلات کو آمدن میں اضافے کا ذریعہ بنانے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں گے۔
احتساب سب کا
٭…سخت قوانین پرمشتمل ’’احتسابی نظام‘‘ تشکیل دیا جائے گا تاکہ رشوت، کمیشن اور کک بیکس سمیت ہر قسم کی بدعنوانی کامکمل خاتمہ کیا جا سکے۔
٭…قومی احتساب بیورو (نیب) کا سربراہ اسے مقرر کیا جائے گا جس کی قابلیت، اہلیت اور امانت و دیانت مسلمہ ہو۔
٭…نیب، ایف آئی اے سمیت تمام تفتیشی اداروں کی تنظیم نو کی جائے گی اور اس میں سیاسی مداخلت اور انتقامی کارروائیوں پر پابندی عائد کی جائے گی۔
٭…پلی بارگیننگ ختم کی جائے گی اور کرپشن ثابت ہونے پر مجرم کی تمام جائیداد بحق سرکار ضبط کی جائے گی۔
٭…لوٹی ہوئی قومی دولت قومی خزانے میں واپس لانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
٭…ہر قسم کے بدعنوان عناصر کو شریعت کے مطابق موت اور عمر قید سمیت سخت سزائیں دی جائیں گی۔
٭…30 یا 99 سالہ لیز ختم ہونے پر دی گئی سرکاری اراضی واپس سرکاری تحویل میں لی جائے گی۔ لیزڈ اراضی غیر قانونی طور پر فروخت کرنے والے بدعنوان عناصر کا احتساب کیا جائے گا۔
خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان
انصاف سب کے لیے
٭…عدالتی فیصلے قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے اور کوئی عدالت قرآن و سنت کے خلاف فیصلہ نہیں دے گی۔
٭…اعلیٰ عدلیہ اور وکلا کی مشاورت سے عدلیہ کے بروقت اور فوری فیصلوں کے لیے عدالتی نظام کی تنظیم نو کی جائے گی۔
٭…نچلی سطح پر عدالتی نظام کی مکمل اصلاح کے لیے مؤثر و متحرک حکمت عملی وضع کی جائے گی۔
٭…عدالتی تحقیقات (Investigation) کا موثر نظام وضع کیا جائے گا۔
٭…دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلے بالترتیب چھ اور تین ماہ کے اندر کیے جائیں گے۔
٭…دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلے بالترتیب چھ اور تین ماہ کے اندر کیے جائیں گے۔
٭…عدلیہ کے موبائل یونٹس کا قیام عمل میں لایا جائے گا تاکہ دور دراز علاقوں تک انصاف پہنچایا جا سکے۔
٭…عدالتی فیصلوں پر بروقت عمل درآمد کے لیے ’’آن لائن مانیٹرنگ‘‘ کا نظام بنایا جائے گا۔
٭…فاسٹ ٹریک بزنس کورٹس قائم کی جائیں گی۔
اَمن سب کے لیے
٭…پولیس اسٹیشن کو ’’خوف‘‘ کب بجائے ’’تحفظ‘‘ کا ’’استعارہ‘‘ بنایا جائے گا۔ جسے دیکھتے ہی شہریوں کو ’’احساسِ تحفظ‘‘ ہو گا۔
٭…پولیس کی جدید خطوط پر پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ دینی و اخلاقی تربیت کی جائے گی۔
٭…خواتین، بچوں اور بچیوں کی عزت و عصت کی حفاظت کے لیے پولیس کا ’’فوری ریسپانس یونٹ‘‘ قائم کیا جائے گا۔
٭…پولیس کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر کے رشوت ستانی کو ختم کیا جائے گا۔
٭…رشوت ستانی میں ملوث اہلکاروں کے خلاف فوری انضباطی کارروائی کی جائے گی اور ملوث اہلکاروں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں گی۔
٭…ماورائے آئین گرفتاریوں، شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنے، جعلی پولیس مقابلوں، ماورائے عدالت قتل اور دورانِ حراست پولیس تشدد کا خاتمہ کیا جائے گا۔
تعلیم سب کے لیے
٭…تعلیم کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا جائے گا۔
٭…بلاتفریق ہر مسلم و غیر مسلم، امیر و غریب اور شہری و دیہاتی کو ہر سطح کی تعلیم کا موقع دیا جائے گا۔
٭…مختلف نظام ہائے تعلیم اور طبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ کر کے پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم نافذ کیا جائے گا۔
٭…قرآن و سنت کے مطابق نصابِ تعلیم تیار کیا جائے گا۔ اخلاقیات اور معاملات سنوارنے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
٭…آئینی ترمیم کے ذریعے تعلیم کے شعبے کو وفاق کے تحت لا کر اسلامی نظریہ حیات اور نظریہ پاکستان کو نصابِ تعلیم کا محور بنایا جائے گا۔
٭…فنی تعلیم، شہری شعور، روڈ سیفٹی، حفظانِ صحت اورکردار سازی کے موضوعات کو نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے گا۔
٭…تعلیمی اداروں میں بنیادی سطح پر انٹرپرینیور شپ (Enterpreneurship) کی تعلیم و ترغیب دی جائے گی۔
٭…شرحِ خواندگی کو سو فی صد کیا جائے گا اور میٹرک تک تعلیم مفت اور لازمی ہو گی۔
٭…عربی، انگریزی اور دوسری عالمی زبانوں کو نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے گا۔
٭…جدید خطوط پر نظام تعلیم کو استوار کیا جائے گا اور تحقیق و تصنیف کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
٭…سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں قرآن و سنت کی بنیادی تعلیم لازمی ہو گی۔
٭…طلبہ اور طالبات کے لیے پچاس (50) نئی یونیورسٹیاں اور ٹیکنیکل کالجز بنائے جائیں گے۔
٭…طالبات کے لیے اعلیٰ معیاری تعلیمی ادارے قائم کر کے مخلوط نظام تعلیم کا خاتمہ کیا جائے گا اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خصوصی مراعات دی جائیں گی۔
٭…وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اعلیٰ تعلیم کے لیے تحقیق و ترقی پروگرام کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے گا۔
٭…بجٹ میں تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا کم از کم 5 فیصد مختص کیا جائے گا اور اس میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔
٭…سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو خصوصی احترام اور معقول تنخواہیں دی جائیں گی۔
٭…طلبہ و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بلاسْود قرضے دیے جائیں گے۔
٭…اسلامی تہذیب و ثقافت پر لکھی جانے والی 100 معرکتہ الاآرا کتب بڑی لائبریریوں کو فراہم کی جائیں گی۔
صحت سب کے لیے
٭…تمام ہسپتالوں میں 24 گھنٹے آ?ٹ ڈور علاج علاج اور مفت ایمرجنسی سروس مہیا کی جائے گی۔
٭…شہری اور دیہی علاقوں میں خواتین کی زچگی اور حادثاتی طبی سہولیات کے لیے گھر کے قریب انتظام کیا جائے گا۔
٭…اندرونِ ملک معیاری اور سستی ادویات اور آلات کی تیاری کے لیے خصوصی مراعات دی جائیں گی۔
٭…ادویات پر کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کرنے اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے ادویات کی جزک (Generic) ناموں سے فروخت کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔
٭…مستحق افراد کا سرکاری سطح پر ڈیٹا بیس تیار کر کے دل، گردہ، ہیپاٹائٹس، کینسر، ایڈز، ٹی بی اور منشیات کے مریضوں کا مفت علاج کیا جائے گا۔
٭…تمام ہسپتالوں میں امراضِ دل ، ذیابیطس، گردہ، ہیپاٹائٹس، کینسر، ایڈز ، ٹی بی ، منشیات اور نفسیات کے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا تقرر کیا جائے گا۔
٭…ہر ڈاکٹر کو تعلیم کی تکمیل پر ملازمت فراہم کی جائے گی اور معقول معاوضہ دیا جائے گا۔
٭…وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے صحت کے سالانہ بجٹ میں اضافہ کیا جائے گا۔
٭…ہر ہسپتال میں طب نبوی، طب یونانی، ہومیو پیتھی اور ہربل طریقہ علاج کے الگ الگ یونٹ قائم کیے جائیں گے۔ نیز ان طریقہ ہائے علاج کی مکمل سرپرستی کی جائے گی۔
٭…موبائل ہیلتھ یونٹس کے ذریعے فوری علاج فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
٭…پانچ ہزار کی دیہی آبادی کے لیے ’’رورل ہیلتھ ڈسپنسری‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
٭…اتفاقی حادثات میں زخمیوں کی جان بچانے کے لیے نیشنل ہائی ویز پر ہر 50 کلومیٹر کے بعد اور موٹرویز کے ہر انٹرچینج پر ایمرجنسی ٹراما سنٹرز قائم کیے جائیں گے۔
٭…زخمیوں کی فوری طبی امداد کے لیے ایمرجنسی ہیلی کاپٹر سروس شروع کی جائے گی۔
٭…پیرامیڈیکل سٹاف کی جدید طرز پر پیشہ ورانہ اور اخلاقی تربیت کی جائے گی۔
٭…وبائی امراض سے بچا? اور علاج کے لیے بڑے سپتالوں میں خصوصی سنٹرز اور سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
٭…مریضوں کی نجی ہسپتالوں سے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں منتقلی کے لیے ان ہسپتالوں کے درمیان سہولت و ہم آہنگی کے لیے قانونی اور عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
٭…ہر خاندان میں ماں اور بچے کی صحت کا شعور پیدا کرنے کی مہم چلائی جائے گی۔
٭…یونیورسل ہیلتھ کیئر کے عملی نفاذ کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔
چھت سب کے لیے
٭…بے آباد زمینوں کو آباد کرنے کی شرط پر مستحق افراد میں زمین تقسیم کی جائے گی۔
٭…کم آمدن والے افراد کو سستی زمین خریدنے اور مکافات کی تعمیر کے لیے آسان اقساط پر بلاسود قرضے دیے جائیں گے۔
٭…10 مرلہ تک کے ذاتی گھر پر پراپرٹی ٹیکس معاف کیا جائے گا۔
٭…سرکاری اور نجی زمینوں پر جبری قبضے ختم کرنے کے لیے موثر قانون سازی کی جائے گی۔
٭…سرکاری زمینوں پر غیر قانونی سوسائٹیوں قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
٭…ہا?سنگ سوسائٹیوں اور سکیموں کے متاثرین کو قانونی تحفظ دیا جائے گا۔
٭…ہا?س بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے قرضے نادہندگان کے ذمے واجب الادا سْود معاف کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔
٭…زمین کی قیمت اور غیر قانونی خرید و فروخت کو کنٹرول کرنے کے لیے ’’رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ قائم کی جائے گی۔
روزگار سب کے لیے
٭…وفاقی، صوبائی اورمقامی حکومتوں میں سرکاری ملازمت پر پابندی ختم کر کے میرٹ پر خالی اسامیوں کو پْر کیا جائے گا۔
٭…ذاتی کاروبار کی ترغیب و تربیت کے ساتھ غیر سودی قرضے دیے جائیں گے۔
٭…کم پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ’’روزگار پروگرام‘‘ بنایا جائے گا۔
٭…چھوٹے صنعتی یونٹ اور کاٹیج انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کے لیے بلاسْود قرضے اور سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
٭…تعلیم یافتہ بے روزگار افراد کومخصوص مدت کے لیے ’’بے روزگاری الا?نس‘‘ دیا جائے گا۔
سستی خوراک سب کے لیے
٭…دودھ، سبزیوں، پھلوں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی سستے داموں فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ کاشتکار اور صارف کے درمیان غیر ضروری واسطوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔
٭…آٹا، چینی، خوردنی تیل و دیگر اشیائے خور و نوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی اور استحکام لایا جائے گا۔
٭…قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے مرد و خواتین صارفین اورمقامی علمائے کرام پر مشتمل ’’پرائس کنٹرول کمیٹیاں‘‘ تشکیل دی جائیں گی۔
٭…غریب و متوسط طبقے کے لیے حقیقی معنوں میں سستے بازار قائم کیے جائیں گے۔
خوشحال صوبے
٭…ہر صوبے کے قدرتی وسائل پر پہلا حق اْسی صوبے کا ہو گا جہاں سے وہ پیدا ہوتے ہیں۔
٭…قومی مالیاتی کمیشن وفاق اور صوبوں میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کے فارمولے پر نظرثانی کی جائے گی۔
٭…قومی مالیاتی کمیشن کے منظور کردہ مالیاتی ایوارڈ پر فوری عمل درآمد کروانے اور صوبوں کو مالی وسائل کی بروقت فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔
٭…وفاقی حکومت کے پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام سے تمام صوبوں کو انصاف کی بنیاد پر ترقیاتی فنڈز دیے جائیں گے۔
٭…دیہی علاقوں میں ایگروبیسڈ انڈسٹری قائم کی جائے گی۔
٭…دیہی علاقوں کو شہری علاقوں کی طرح تمام سہولتیں مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
٭…مشترکہ مفادات کونسل اور بین الصوبائی رابطے کی وزارت کو فعال کیا جائے گا اور تمام معاملات باہمی مشاورت و خوش اسلوبی سے طے کیے جائیں گے۔
٭…دیہی آبادی کے بڑے شہروں کی جانب بہا? کو روکنے کے لیے جدید طرز پر نئے شہر آباد کیے جائیں گے۔
٭…ہر ڈویڑنل ہیڈ کوارٹر کے لیے ترقیاتی منصوبہ بنایا جائے گا۔
خوشحال بلوچستان
٭…بلوچستان کے قدرتی وسائل اور سی پیک پر پہلا حق بلوچستان کے عوام کا ہو گا۔
٭…بلوچستان کے عوام کی غربت، ناخواندگی اور پسماندگی کے خاتمے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں گے۔
٭…صوبے کے عوام کو تحفظ، روزگار اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔
٭…پاک ایران گیس پائپ لائن بچھانے کا عمل شروع کیا جائے گا۔
٭…سینڈک، ریکوڈک، گوادر اور چمالنگ، ماربل اور کروائیٹ جیسے بڑے قیمتی منصوبوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلایا جائے گا۔
٭…پورے بلوچستان میں غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔
٭…بلوچستان کے جبری گمشدہ افراد کو بازیاب کروایا جائے گا۔
٭…’’حق دو گوادر تحریک‘‘ اور حکومتِ بلوچستان کے درمیان تحریری معاہدے پر عمل درآمد کرایا جائے گا۔
٭…ساحلی و سرحدی علاقوں کو نیشنل گرڈ اسٹیشن سے منسلک کر کے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے گا اور ہنگامی حالات میں ایران سے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔
٭…گوادر اور ساحلی علاقوں کے ماہی گیروں کے روزگار کے تحفظ کے لیے ٹرالر مافیا کو کنٹرول کیا جائے گا اور ملکی قوانین پرمؤثر عمل درآمد کرایا جائے گا۔
٭…سستی اشیا کی فراہمی کے لیے سرحدی تجارت (بارڈر ٹریڈ) کو جاری رکھا جائے گا اور اس میں کمیشن اور رشوت ختم کی جائے گی۔
٭…صوبے کو وافر پانی کی فراہمی کے لیے کچھی کینال کا بقیہ حصہ مکمل کیا جائے گا اور بارانی ندی نالوں پر ڈیم تعمیر کیے جائیں گے۔
٭…بلوچستان کی بنجر زمین کو قابل کاشت و سکونت بنانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے گی۔
٭…ناراض بلوچ قبائل کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے اور انھیں قومی دھارے میں شامل کر کے احترام دیا جائے گا۔
خوشحال خیبر پختونخوا
٭…صوبہ خیبر پختونخوا سے نکلنے والی قدرتی گیس، پٹرول معدنیات اور بجلی کی پیداوار پر پہلا حق صوبہ خیبر پختونخواہ کا ہو گا۔
٭…قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں دہشت گردی سے متاثرہ صوبہ خیبر پختونخواہ کا حصہ بڑھایا جائے گا۔
٭…صوبے کو بجلی کے خالص منافع کی مکمل اور بروقت ادائیگی یقینی بنائی جائے گی اور اے جی این قاضی فارمولا کے مطابق بجلی کے خالص منافع کے بقایا جات وفاقی حکومت سے حاصل کیے جائیں گے۔
٭…سابقہ فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کیے گئے اضلاع کی ترقی و خوشحالی کے لیے ’’خصوصی پیکج‘‘ دیا جائے گا اور نئے اضلاع کو ترقی یافتہ اضلاع کے برابر لایا جائے گا۔
٭…صوبائی فنانس کمیشن سے تمام اضلاع کو ترقیاتی فنڈز کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے گا۔
٭…شمالی اضلاع میں چھوٹے ڈیمز کے منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا۔
٭…چائے کی کاشت پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
٭…پشاور، نوشہرہ، کوہاٹ، بونیر سمیت سابقہ فاٹا کے اضلاع میں نئی صنعتوں کے قیام کے لیے خصوصی مراعات اور زونز قائم کیے جائیں گے۔
٭…افغان اور پاکستانی شہریوں کی آسان آمدورفت کے لیے ’’خصوصی کارڈ‘‘ سسٹم کا اجرا کیا جائے گا اور ویزا فیس ختم کی جائے گی۔
٭…مقامی تاجروں کو وسط ایشیا سے تجارت بڑھانے کے لیے خصوصی سہولیات دی جائیں گی۔
٭…خیبر پختونخواہ رئیل سٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔
خوشحال سندھ
٭…سندھ سے کلنے والی قدرتی گیس اور معدنیات پر پہلا حق صوبہ سندھ کا ہو گا۔
٭…صوبائی فنانس کمیشن سے تمام اضلاع کو وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے گا۔
٭…صوبہ سندھ کی ہا?سنگ سوسائٹیوں اور اسکیموں کے متاثرین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
٭…صوبائی سطح پر ’’رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ قائم کی جائے گی۔
٭…تھرکول منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے گا اور اس کی ملازمتوں میں مقامی افراد کو ترجیح دی جائے گی اور اس کی آمدنی سے پبلک سیکٹر یونیورسٹی قائم کی جائے گی۔
٭…سندھ کی ساحلی پٹی پر ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔
٭…کراچی، حیدر آباد، لاڑکانہ سمیت سندھ کے تمام شہروں سے کچرا کنڈی کو ٹھکانے لگانے کے لیے ’’ویسٹ مینجمنٹ‘‘ کا جدید طریقہ اختیار کیا جائے گا۔
٭…سندھ کے بیمار صنعتی زونز کو فعال کیا جائے گا۔
٭…گورکھ ہل کو سیاحتی مرکز کے طور پر ترقی دی جائے گی۔
٭…خوشحال کراچی کے لیے جامع ترقیاتی منصوبہ پیش کیا جائے گا۔
٭…کراچی کی حقیقی آبادی کا تعین کرنے کے لیے فول پروف مردم شماری کروائی جائے گی۔
٭…کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے وفاق اور صوبہ سندھ کی حکومتوں سے فنڈز حاصل کیے جائیں گے۔