ادارے رول آف لا نہیں مانتے، ذمہ دار وزیراعظم وقت آئے گا، اعلیٰ عہدیدار جوابدہ ہوں گے: جسٹس محسن اختر کیانی

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ بلوچ طلبہ بازیابی کیس میں ریمارکس دیے ریاستی اداروں کو جوڈیشل سسٹم پر یقین رکھنا چاہیے، ریاست اور اس کے ادارے رول آف لاء کو نہیں مانتے اس لیے جبری گمشدگیاں ہوتی ہیں، مسنگ پرسنز کا تصور صرف ہمارے ملک میں ہے دیگر ممالک میں ایسا کوئی تصور نہیں، قانون کے سامنے سب جوابدہ ہیں، وقت آئے گا کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کے افسران اور اعلی عہدیدار بھی پراسیکیوٹ ہوں گے، کسی شخص پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا تو اسے مہینوں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، صرف لوگوں کو اندر قید کر دینے سے دہشتگردی نہیں رکے گی، ٹرائل کرنا ہو گا، یہ ذہن میں رکھیں کہ ایسے کسی بھی واقعے کا ذمہ دار وزیراعظم ہے۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہاکہ درخواست گزار ایمان مزاری نے لاپتہ بلوچ طلبا کی فہرست فراہم کی تھی، 9 لاپتہ بلوچ طلبا کوبازیاب کروالیا گیا جبکہ 15 ابھی تک مسنگ ہیں، مسنگ بلوچ طلبا کو بازیاب کرانے کیلئے تمام کوششیں کی جارہی ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے پاکستان کی عالمی سطح پر بہت بدنامی ہورہی ہے، میرے سامنے کوئی مسنگ بلوچ بازیابی کے بعد نہیں آیا، جس سے میں سوال کرسکوں، جو لوگ بازیاب ہوئے پتہ نہیں وہ ٹھیک بھی ہیں یا نہیں؟، نجانے بازیاب ہونے والوں کی ہیلتھ کنڈیشن کیا ہوگی؟۔ جو افراد لاپتہ ہیں انہیں چاہے 10 سال سے زائد کا وقت گزر گیا، وہ افراد زندہ ہیں یا مرگئے بتانا پڑے گا۔ دوران سماعت وکیل نے بتایا کہ بلوچ افراد کے دو احتجاج ہورہے ہیں، ایک جن کے لوگ مسنگ ہیں، دوسرے شہداء کے ورثاء کا احتجاج ہے۔ عدالت نے کہا اٹارنی جنرل صاحب، آپ اس معاملے کو دیکھیں اور دونوں احتجاج کرنے والوں سے ملیں، کہیں وہ ایک دوسرے کو نہ نقصان پہنچائیں، ریاست یقینی بنائے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ ایس ایچ او کوہسار نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے دونوں دھرنوں کو سکیورٹی دی ہے۔ بلوچ خاتون نے کہاکہ آپ ہمیں امید دے دیں ورنہ شاید ہم کبھی مڑ کر واپس نہ آئیں، ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ کے پیاروں سے متعلق بتائیں گے تو آپ شور نہیں مچائیں گے۔ عدالت نے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جن پر الزام ہے انہی سے ہم نے کہنا ہے۔ وزیراعظم، سیکرٹری داخلہ اور دفاع کو بیان حلفی دینا ہو گا کہ جبری گمشدگی نہ آئندہ ہو گی۔ دہشتگردوں کا ٹرائل بھی انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں ہوتا ہے، کیا امر مانع ہے کہ بلوچ شدت پسندوں کا ٹرائل بھی انہی عدالتوں میں ہو، بلوچستان میں اپنی انسداد دہشتگردی عدالتیں فعال کریں ٹرائل ہو سکتا ہے، سسٹم پر اعتماد کریں، یہ درخواست گزار بھی کبھی نہیں چاہیں گے کہ دہشتگردوں کو پروٹیکٹ کریں، ایجنسیوں نے پہلے کئی لوگوں کو اٹھایا اور اْن پر کچھ نہیں نکلا، مگر بعد میں انہیں چھوڑا نہیں گیا کیونکہ کوئی ذمہ داری نہیں لینا چاہتا، ایجنسی میں کوئی شخص یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ یہ فیصلہ کر لے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فیملیز کو اذیت نہ دیں، ایجنسیوں کا اپنا میکنزم ہو گا لیکن انہیں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، میرا ماننا ہے کہ ایسے کسی بھی عمل کا ذمہ دار اعلی ترین عہدیدار ہی ہو گا۔ وزیراعظم، وزیر دفاع و داخلہ اور سیکرٹری دفاع و داخلہ ذمہ دار ہوں گے، نیچے اداروں کی کوئی حیثیت نہیں وہ سب کو جواب دہ ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاق کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک ہفتے میں  بیان حلفی جمع کرا دیں گے کہ آئندہ کوئی جبری گمشدگی نہیں ہو گی۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت13 فروری تک ملتوی کر دی۔

ای پیپر دی نیشن