اب نہیں لوٹ کے آئیں گے وہ جانے والے
یوں سکھاتے تھے‘ کوئی قرض ہو سر پر جیسے
کم نظر آتے ہیں اب قرض چکانے والے
وہ کہ اک دیپ سے سو دیپ جلا دیتے تھے
خود کو اک شمع کی مانند جلانے والے
روشنی جو بھی کوئی چاہے وہ ان سے پائے
خون سے بھر کے دیا لو کو بڑھانے والے
سب کا ایسا ہی تھا غمخوار‘ مرا یار قتیل
اسکو ملتے تھے کئی زخم دکھانے والے
ایک دوچار نہیں سو نہیں قصے ہیں ہزار
عمر بھر محفل یاراں میں سنانے والے
اسکے اشعار میں تھے عکس حسیں چہروں کے
اسکے گیتوں میں صنم دل کو لبھانے والے
وہ مسافر تھا رہ عشق کا ان تھک پردم
اسکو ہمدم نے ملے ساتھ نبھانے والے
مے محبت کی پلاتا رہا مے خواروں کو
رہے ہم جام نہ پر ہوش گنوانے والے
اپنے ہم پیالوں کو چاہت کے نوالے دینا
اب کہاں میکدوں میں ایسے پلانے والے
اپنے پہلو میں کئی یاروں کو آباد کیا
تو نے غالب کی یہ کالونی بنانے والے
اور خود چھوڑ گیا اپنی ”شفائی سٹریٹ“
ہم پہ کچھ ترس نہ آیا تجھے جانے والے
آج تاریخ جدائی کی ہے گیارہ جولائی
جانے‘ فرقت کے برس کتنے ہیں آنے والے