وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ امریکہ کو ”یس باس“ کہنے کے دن اب گزر گئے۔ ماضی کی حکومت ”یس باس“ کہتی رہی۔ ہم سے کوئی توقع نہ رکھے کہ ہم بھی امریکہ کو ”یس باس“ کہیں گے۔ گزشتہ روز لاہور میں لاہور پریس کلب کے وفد سے ملاقات کے دوران بعض سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم ”یس باس“ نہیں کہتے اسی لئے امریکہ اب بول رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مائیک مولن کے پاس سلیم شہزاد کے حوالے سے کوئی ثبوت ہے تو وہ اسے انکوائری کمشن کے سامنے پیش کریں۔ دوسری جانب آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے ”نیویارک ٹائمز“ کی رپورٹ کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو کمزور کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے اور اس پس منظر میں شائع ہونیوالی امریکی میڈیا رپورٹس پاکستان کی سلامتی پر براہ راست حملہ ہیں۔ گزشتہ روز ”رائٹر“ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”نیویارک ٹائمز“ نے حالیہ ہفتوں میں پاک فوج اور آئی ایس آئی کیخلاف متعدد متضاد خبریں شائع کیں جو سراسر حقائق کے منافی اور منفی پروپیگنڈہ پر مبنی ہیں اور اگر اس قسم کی بے بنیاد خبروں کا سلسلہ جاری رہا تو عراق کی طرح پاکستان کے بارے میں بھی خبروں پر انہیں معافی مانگنا پڑیگی۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ بالخصوص اپنے نائن الیون سے اب تک اس خطہ میں پاکستان کی سالمیت کو کمزور کرنے کے ایجنڈے کے تحت ہی اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف ہے جس میں بظاہر اس نے پاکستان کو اپنے فرنٹ لائن اتحادی کا درجہ دے رکھا ہے اور فی الحقیقت وہ پاکستان کے بدترین دشمن کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے غیرمستحکم کرنے اور اسکی ایٹمی ٹیکنالوجی اور صلاحیتوں پر دسترس حاصل کرنے کی گھناﺅنی سازشوں میں مصروف ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے سابقہ کمانڈو جرنیلی آمر مشرف نے بش انتظامیہ کی ایک ٹیلیفون کال پر ڈھیر ہو کر اس خطہ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کیا اور پھر ”ڈو مور“ کے ہر امریکی تقاضے پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے پاکستان کی عالمی رسوائیوں اور جگ ہنسائیوں کا اہتمام بھی کرتے رہے اور پاکستان کے شہریوں کو چن چن کر امریکہ کے حوالے کرکے ڈالر بھی کھرے کرتے رہے جس کا اعتراف انہوں نے اپنی کتاب ”اِن دی لائن آف فائر“ میں خود کیا۔ چنانچہ اس خطہ میں امریکی نیٹو افواج کو اپنے منحوس قدم جمانے کا جہاں امریکی کٹھ پتلی افغان صدر حامد کرزئی نے موقع فراہم کیا وہاں ہمارے ”کمانڈو“ مشرف بھی اس جرم میں برابر کے شریک رہے جنہوں نے نیٹو افواج کو پاکستان کی سرزمین سے لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کی اور نیٹو کی فوجی کارروائیوں کیلئے اپنے ائر بیسز بھی امریکہ کے حوالے کردئیے جس کا اعتراف انہوں نے حالیہ دنوں میں اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی کیا ہے۔
ملک کی سالمیت کو بٹہ لگانے والے انکے انہی جرائم کی وجہ سے قوم نے ان سے بیزار ہو کر 18 فروری 2008ءکو عام انتخابات میں اپنے ووٹ کی طاقت سے انہیں انکی باقیات سمیت مسترد کیا اور پھر انہیں ایوان صدر سے بھی رخصت ہونا پڑا۔ عوامی مینڈیٹ کی بنیاد پر تشکیل پانے والی موجودہ حکومت سے عوام کو توقع تھی کہ وہ ملک و قوم کو مشرف کی ملکی مفاد کے منافی اختیار کی گئی پالیسیوں سے نجات دلائیگی اور قومی غیرت و مفادات کے تقاضوں کے مطابق آبرومندانہ پالیسی اختیار کرکے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریگی اور ملک کی سالمیت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیگی مگر بدقسمتی سے موجودہ منتخب حکمرانوں نے امریکہ کے ساتھ تعلق کے معاملہ میں نہ صرف مشرف کی پالیسیوں کو برقرار رکھا بلکہ مزید تابعداری والی پالیسیاں اختیار کرکے امریکہ کو اس دھرتی پر مزید کُھل کھیلنے کا موقع بھی فراہم کردیا۔حتیٰ کہ دو مختلف مواقعوں پر ڈرون حملوں کیخلاف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی گئی قراردادوں کو اسی وقت ڈرون حملے کرکے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ امریکی پالیسی درحقیقت پاکستان کی سالمیت اور آزادی و خودمختاری کو کھلم کھلا اور براہ راست چیلنج کرنے کے مترادف ہے جبکہ کوئی دوست ملک اپنے کسی دوست ملک کے بارے میں ایسی پالیسی اختیار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
مشرف کی تو اپنی مصلحتیں، مفادات اور مجبوریاں تھیں جن کے ماتحت انہوں نے امریکی غلامی قبول کئے رکھی اور اپنی وفاداری کا یقین دلانے کیلئے قومی مفادات کو ٹھیس پہنچانے والی پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتے رہے مگر ہمارے منتخب حکمرانوں نے تو مشرف سے بھی دو چار قدم آگے بڑھ کر امریکی احکام کی تعمیل و تکمیل کی اور اسے اپنی وفاداری کا یقین دلانے کی کوشش کی۔ وزیر دفاع احمد مختار جو اپنی زبان سے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں ہر ڈرون حملے پر ہزیمتوں میں لپٹا ہوا یہی موقف اختیار کرتے نظر آتے رہے کہ ہم ڈرون گرا نہیں سکتے حالانکہ سابقہ اور موجودہ دونوں ائرچیفس واشگاف الفاظ میں یہ باور کراچکے ہیں کہ پاک فضائیہ کے پاس ڈرون گرانے کی صلاحیت اور ٹیکنالوجی موجود ہے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے ہمارے ہی ائربیسز کو استعمال کرکے ڈرون حملوں کے ذریعے ہی دھرتی کو ادھیڑا اور ہمارے ہی شہریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اب امریکی صدر اور سیکرٹری آف سٹیٹ سے لیکر نچلے درجے کے حکام تک یہ باور کرانا بھی ضروری سمجھ رہے ہیں کہ امریکہ اپنے ہائی ویلیو ٹارگٹس کے تعاقب میں پاکستان میں دوبارہ کہیں بھی ایبٹ آباد آپریشن جیسی کارروائی کرسکتا ہے۔ اب امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے اس منصب کا چارج سنبھالتے ہی اپنے دورہ¿ کابل کے موقع پر یہ الزام عائد کرکے کہ القاعدہ کے رہنماءایمن الظواہری پاکستان کے قبائلی علاقے میں موجود ہیں، پاکستان ان کا کام تمام کرکے جواباً خودکش حملوں کو دعوت دیں۔ اور شمسی ائربیس سے آپریشن جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ اس خطہ میں ہمارے دوست کی حیثیت سے نہیں بلکہ بدترین دشمن کی حیثیت سے موجود ہے۔ اس لئے ملک کی سالمیت کے تقاضوں کے تحت ہمارے حکمرانوں کو سب سے پہلے امریکہ کو اپنا دشمن قرار دیکر اسکے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک کردینا چاہئے اور قبائلی علاقوں میں امریکی ایماءپر جاری آپریشن بند کرکے اپنی افواج کو ملک کے دفاع کی خاطر مغربی سرحدوں پر تعینات کردینا چاہئے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ کہنا خوش آئند ہے کہ امریکہ کو ”یس باس“ کہنے کے دن اب گزر گئے، تاہم قوم کو حکمرانوں کی جانب سے اس پالیسی کا عملی مظاہرہ بھی نظر آنا چاہئے۔ اسکے برعکس صدر زرداری تو اب بھی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا تذکرہ کرکے امریکہ کو اس جنگ میں اپنے فدویانہ کردار کا یقین دلاتے نظر آرہے ہیں جبکہ اس جنگ کے ردعمل میں ہی ہم خودکش حملوں اور بدترین دہشت گردی کی زد میں آئے ہیں۔ اس پرائی آگ میں کودنے کا نتیجہ ہم اپنی سکیورٹی فورسز کے پانچ ہزار سے زائد جوانوں اور افسروں کی شہادتوں، 35 ہزار سے زائد اپنے بے گناہ شہریوں کی جانوں کے ضیاع اور ملکی معیشت کو پہنچنے والے 50 ارب ڈالر کے قریب نقصان کی صورت میں بھگت چکے ہیں جبکہ امریکی جارحانہ عزائم ہماری ملکی سلامتی کیلئے بھی خطرے کا پیغام بنے نظر آرہے ہیں۔ وہ ہماری سلامتی کیخلاف اپنے ایجنڈے پر کاربند ہے تو ہمیں بھی اسے یہ عملی ثبوت فراہم کرنا چاہئے کہ ہم اسکے دست نگر نہیں بلکہ ایٹمی قوت کی حامل ایک آزاد اور خودمختار مملکت ہیں، چاہے یہ ثبوت طبلِ جنگ بجا کر فراہم کیا جائے۔ جب تک اپنی دفاعی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ کرکے ہم بدمست ہاتھی کے دانت کھٹے نہیں کریں گے اس وقت تک اس کے ہوش ٹھکانے نہیں آئیں گے اس لئے حکومتی اور عسکری قیادتوں کو امریکہ کو ”نو“ کہنے کا حوصلہ ہوا ہے تو اب اس پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہ کر ملک کے دفاع کی حکمت عملی طے کریں۔ قوم انکے شانہ بشانہ دشمن کے مقابلہ کیلئے تیار ہے۔
او آئی سی سلامتی کونسل میں
مستقل نشست کیلئے کوشش کرے
عالمی حمایت میں ناکامی پر سلامتی کونسل کی مستقل نشست حاصل کرنے کیلئے بھارت کی اُمیدیں زمین بوس ہوگئیں مغربی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان،اٹلی کے یو ایف سی گروپ اور چین نے برازیل، جاپان اور جرمنی کے جی فور ممالک کی کوششیں خاک میں ملا دیں۔ 9نومبر 2010 کو امریکی صدر بارک اوباما نے بھارت کے دورے کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ مجھے اس لمحے کا انتظار ہے جب ایک اصلاح شدہ سلامتی کونسل میں بھارت مستقل رکن کی حیثیت سے شامل ہو،امریکہ کی بہت پرانی خواہش تھی کہ وہ چین کے مقابلے میں سلامتی کونسل میں ایک بااعتماد اور طفیلی ملک کو لائے جو اس کی ہاں میں ہاں ملاتا رہے لہٰذا اس نے چین کے پڑوس میں ہی ایک اتحادی تلاش کیا اور اسے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کیلئے برازیل، جاپان اور جرمنی کے جی فور ممالک کی بڑی تگ و دو کے بعد صرف80 ممالک کی حمایت کر مل سکی۔ جبکہ جنرل اسمبلی میں قرار داد کیلئے128 ووٹ ضروری ہوتے ہیں۔ پاکستان اٹلی کے یو ایف سی گروپ اور چین نے بھارت اور اسکے حواریوں کے خوابوں کو چکنا چور کردیا، امن و سلامتی کے ٹھیکیدار بھارت کی حمایت کرنے والے 80ممالک کی آنکھوں پر پردہ کیوں پڑچکا ہے کہ سلامتی کونسل میں مستقل تو کجا اسکی عارضی جگہ بھی نہیں بنتی کیونکہ اسکی پوری تاریخ پڑوسیوں سے جنگ و جدل اور اقوام متحدہ کے مسلمہ اصولوں کی پامالی سے بھری پڑی ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں اڑا کر کشمیر کے ایک بڑے حصے پر غاصبانہ قبضہ جمالیا اور آج تک وہاں خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔بھارت 63 سال سے اقوام متحدہ کے منشور اور دستور کی دھجیاں اڑا رہا ہے کیا جرمنی کے جی فور ممالک کو ووٹ دیتے وقت بھارت کی یہ ہٹ دھرمیاں نظر نہیں آئیں اب او آئی سی میں شامل ممالک کو ملکر ایک اسلامی ملک کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں، عرب ممالک ترکی، ایران، پاکستان اور انڈونیشیا اگر ملکر کوششیں کریں تو بھارت جیسے مکار کو اس دوڑ سے مستقل آﺅٹ کرکے اسلامی ملک کو لایاجاسکتا ہے۔اس سے او آئی سی بھی مضبوط ہوگی اورکسی بھی اسلامی ملک کے خلاف جارحیت کے دروازے بند ہوجائیں گے۔1982 سے لیکر2006 تک امریکہ نے اسرائیل کے حق میں32دفعہ ویٹو کی طاقت استعمال کی ہے اگر آج کوئی اسلامی ملک سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہوتا تو افغانستان، عراق، کشمیر، فلسطین میں آج مسلمان گاجر مولی کی طرح نہ کاٹے جارہے ہوتے اس لئے او آئی سی متحرک ہوکر ایک اسلامی ملک کیلئے مستقل نشست کی کوشش کرے۔
کشمیر میں ایک اور اسرائیل
بنانے کا امریکی منصوبہ
امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے بارے انکشاف ہوا ہے کہ اس نے 1994ءسے پاکستان سمیت مسلم ملکوں اور چین کے حوالے سے ایک منصوبہ بنایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں یہودیوں کو آباد کرکے ان کیلئے ایک نیا ملک بنایا جائے جو چین اور پاکستان پر نظر رکھے۔امریکی سی آئی اے مسلمانوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ان کی طاقت کو پارہ پارہ کرنے کے منصوبے پر عرصہ دراز سے عمل پیرا ہے۔ 3 جون 1924ءکو خلافت عثمانیہ پر شب خون مار کر مسلمانوں کی قوت مجتمع کو منتشر کیا اور درجن بھر ملک بنا کر مسلمانوں کو کمزور کیا اسی طرح 14 مئی 1948ءکو اسرائیل کے نام سے صہیونی ریاست بنا کر فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا‘ اسی طرح اب سی آئی اے کا 1994ءکو ترتیب دیا گیا منصوبہ خدانخواستہ اگر کامیاب ہو جاتا ہے۔ تو اس سے بھی کشمیری مسلمانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹا جائے گا اور بھارت کو ایک نیا حلیف مل جائے گا۔ جبکہ پاکستان کی بغل میں ایک صہیونی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد اس خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس کا اندازہ فلسطین کے موجودہ حالات کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔امریکہ ایک اور لے پالک بھارت کے ذریعے چین اور پاکستان کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور غیر ملکی امداد سے چلنے والی این جی اوز سی آئی اے کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنے کاموں میں مصروف ہیں‘ اسی طرح اس منصوبے میں بلوچستان کے اندر بھارتی لابی کو مضبوط کرنا اور علیحدگی کی آواز بلند کرنا بھی شامل ہے۔ موجودہ حالات کو اگر دیکھا جائے تو سی آئی اے 1994ءکے پلان پر مکمل طور پر عمل پیرا ہے ہمارے حکمرانوں کو امریکی سازش سے آگاہ رہتے ہوئے جلد از جلد امریکہ اور اس کے کارندوں کو اس خطے سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے اور غیر ملکی این جی اوز کی سرگرمیوں کو بھی مانیٹر کرنا چاہئے۔
کمشنری نظام کی بحالی کا مستحسن فیصلہ
یہ آرڈیننس جاری ہوگیا ہے کہ سندھ میں کمشنری نظام اور کراچی حیدر آباد کی سابقہ حیثیت بحال کردی گئی ہے پاکستان کی یہ بدنصیبی رہی ہے کہ یہاں چلتے گھوڑے کو چابک رسید کیاجاتا ہے، مشرف نے جب حکومت پر قبضہ کیا تب ملک میں کمشنری نظام قائم تھا اور سسٹم بڑی خوش اسلوبی سے چل رہا تھا لیکن پرویز مشرف نے اس کا گلا گھونٹ کر دنیا کو یہ دکھانے اور اپنا عسکری تسلط چھپانے کیلئے کمشنری سسٹم ختم کرکے اُس کی جگہ بنیادی جمہوریت کے علمبردار ناظمین کا ایک جال بچھا دیا، ان ناظموں نے نظام کو جتنا بگاڑا اور اجاڑا اُس کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ ایک چھوٹا سا مکان رکھنے والا ناظم،کئی بنگلوں پلاٹوں اور بینک بیلنس کا مالک بن گیا اور علاقے کی بہتری کے بجائے وہاں کا ناظم بد معاش مشہور ہوگیا۔ کمشنری نظام ایک لگا بندھا سسٹم تھا جس نے معاشرے کو قانون اور نظم و ضبط میں رکھا ہوا تھا، جب تک ملک میں کمشنری سسٹم بحال رہا لوگوں کو وہ شکایات کبھی نہ ہوئیں جو ناظموں کی لوٹ مار کے دوران پیدا ہوتی رہیں، یہ اچھا فیصلہ کیا گیا اور اس کے کراچی کے امن و امان پر نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ بالخصوص اپنے نائن الیون سے اب تک اس خطہ میں پاکستان کی سالمیت کو کمزور کرنے کے ایجنڈے کے تحت ہی اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف ہے جس میں بظاہر اس نے پاکستان کو اپنے فرنٹ لائن اتحادی کا درجہ دے رکھا ہے اور فی الحقیقت وہ پاکستان کے بدترین دشمن کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے غیرمستحکم کرنے اور اسکی ایٹمی ٹیکنالوجی اور صلاحیتوں پر دسترس حاصل کرنے کی گھناﺅنی سازشوں میں مصروف ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے سابقہ کمانڈو جرنیلی آمر مشرف نے بش انتظامیہ کی ایک ٹیلیفون کال پر ڈھیر ہو کر اس خطہ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کیا اور پھر ”ڈو مور“ کے ہر امریکی تقاضے پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے پاکستان کی عالمی رسوائیوں اور جگ ہنسائیوں کا اہتمام بھی کرتے رہے اور پاکستان کے شہریوں کو چن چن کر امریکہ کے حوالے کرکے ڈالر بھی کھرے کرتے رہے جس کا اعتراف انہوں نے اپنی کتاب ”اِن دی لائن آف فائر“ میں خود کیا۔ چنانچہ اس خطہ میں امریکی نیٹو افواج کو اپنے منحوس قدم جمانے کا جہاں امریکی کٹھ پتلی افغان صدر حامد کرزئی نے موقع فراہم کیا وہاں ہمارے ”کمانڈو“ مشرف بھی اس جرم میں برابر کے شریک رہے جنہوں نے نیٹو افواج کو پاکستان کی سرزمین سے لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کی اور نیٹو کی فوجی کارروائیوں کیلئے اپنے ائر بیسز بھی امریکہ کے حوالے کردئیے جس کا اعتراف انہوں نے حالیہ دنوں میں اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی کیا ہے۔
ملک کی سالمیت کو بٹہ لگانے والے انکے انہی جرائم کی وجہ سے قوم نے ان سے بیزار ہو کر 18 فروری 2008ءکو عام انتخابات میں اپنے ووٹ کی طاقت سے انہیں انکی باقیات سمیت مسترد کیا اور پھر انہیں ایوان صدر سے بھی رخصت ہونا پڑا۔ عوامی مینڈیٹ کی بنیاد پر تشکیل پانے والی موجودہ حکومت سے عوام کو توقع تھی کہ وہ ملک و قوم کو مشرف کی ملکی مفاد کے منافی اختیار کی گئی پالیسیوں سے نجات دلائیگی اور قومی غیرت و مفادات کے تقاضوں کے مطابق آبرومندانہ پالیسی اختیار کرکے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریگی اور ملک کی سالمیت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیگی مگر بدقسمتی سے موجودہ منتخب حکمرانوں نے امریکہ کے ساتھ تعلق کے معاملہ میں نہ صرف مشرف کی پالیسیوں کو برقرار رکھا بلکہ مزید تابعداری والی پالیسیاں اختیار کرکے امریکہ کو اس دھرتی پر مزید کُھل کھیلنے کا موقع بھی فراہم کردیا۔حتیٰ کہ دو مختلف مواقعوں پر ڈرون حملوں کیخلاف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی گئی قراردادوں کو اسی وقت ڈرون حملے کرکے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ امریکی پالیسی درحقیقت پاکستان کی سالمیت اور آزادی و خودمختاری کو کھلم کھلا اور براہ راست چیلنج کرنے کے مترادف ہے جبکہ کوئی دوست ملک اپنے کسی دوست ملک کے بارے میں ایسی پالیسی اختیار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
مشرف کی تو اپنی مصلحتیں، مفادات اور مجبوریاں تھیں جن کے ماتحت انہوں نے امریکی غلامی قبول کئے رکھی اور اپنی وفاداری کا یقین دلانے کیلئے قومی مفادات کو ٹھیس پہنچانے والی پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتے رہے مگر ہمارے منتخب حکمرانوں نے تو مشرف سے بھی دو چار قدم آگے بڑھ کر امریکی احکام کی تعمیل و تکمیل کی اور اسے اپنی وفاداری کا یقین دلانے کی کوشش کی۔ وزیر دفاع احمد مختار جو اپنی زبان سے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں ہر ڈرون حملے پر ہزیمتوں میں لپٹا ہوا یہی موقف اختیار کرتے نظر آتے رہے کہ ہم ڈرون گرا نہیں سکتے حالانکہ سابقہ اور موجودہ دونوں ائرچیفس واشگاف الفاظ میں یہ باور کراچکے ہیں کہ پاک فضائیہ کے پاس ڈرون گرانے کی صلاحیت اور ٹیکنالوجی موجود ہے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے ہمارے ہی ائربیسز کو استعمال کرکے ڈرون حملوں کے ذریعے ہی دھرتی کو ادھیڑا اور ہمارے ہی شہریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اب امریکی صدر اور سیکرٹری آف سٹیٹ سے لیکر نچلے درجے کے حکام تک یہ باور کرانا بھی ضروری سمجھ رہے ہیں کہ امریکہ اپنے ہائی ویلیو ٹارگٹس کے تعاقب میں پاکستان میں دوبارہ کہیں بھی ایبٹ آباد آپریشن جیسی کارروائی کرسکتا ہے۔ اب امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے اس منصب کا چارج سنبھالتے ہی اپنے دورہ¿ کابل کے موقع پر یہ الزام عائد کرکے کہ القاعدہ کے رہنماءایمن الظواہری پاکستان کے قبائلی علاقے میں موجود ہیں، پاکستان ان کا کام تمام کرکے جواباً خودکش حملوں کو دعوت دیں۔ اور شمسی ائربیس سے آپریشن جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ اس خطہ میں ہمارے دوست کی حیثیت سے نہیں بلکہ بدترین دشمن کی حیثیت سے موجود ہے۔ اس لئے ملک کی سالمیت کے تقاضوں کے تحت ہمارے حکمرانوں کو سب سے پہلے امریکہ کو اپنا دشمن قرار دیکر اسکے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک کردینا چاہئے اور قبائلی علاقوں میں امریکی ایماءپر جاری آپریشن بند کرکے اپنی افواج کو ملک کے دفاع کی خاطر مغربی سرحدوں پر تعینات کردینا چاہئے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ کہنا خوش آئند ہے کہ امریکہ کو ”یس باس“ کہنے کے دن اب گزر گئے، تاہم قوم کو حکمرانوں کی جانب سے اس پالیسی کا عملی مظاہرہ بھی نظر آنا چاہئے۔ اسکے برعکس صدر زرداری تو اب بھی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا تذکرہ کرکے امریکہ کو اس جنگ میں اپنے فدویانہ کردار کا یقین دلاتے نظر آرہے ہیں جبکہ اس جنگ کے ردعمل میں ہی ہم خودکش حملوں اور بدترین دہشت گردی کی زد میں آئے ہیں۔ اس پرائی آگ میں کودنے کا نتیجہ ہم اپنی سکیورٹی فورسز کے پانچ ہزار سے زائد جوانوں اور افسروں کی شہادتوں، 35 ہزار سے زائد اپنے بے گناہ شہریوں کی جانوں کے ضیاع اور ملکی معیشت کو پہنچنے والے 50 ارب ڈالر کے قریب نقصان کی صورت میں بھگت چکے ہیں جبکہ امریکی جارحانہ عزائم ہماری ملکی سلامتی کیلئے بھی خطرے کا پیغام بنے نظر آرہے ہیں۔ وہ ہماری سلامتی کیخلاف اپنے ایجنڈے پر کاربند ہے تو ہمیں بھی اسے یہ عملی ثبوت فراہم کرنا چاہئے کہ ہم اسکے دست نگر نہیں بلکہ ایٹمی قوت کی حامل ایک آزاد اور خودمختار مملکت ہیں، چاہے یہ ثبوت طبلِ جنگ بجا کر فراہم کیا جائے۔ جب تک اپنی دفاعی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ کرکے ہم بدمست ہاتھی کے دانت کھٹے نہیں کریں گے اس وقت تک اس کے ہوش ٹھکانے نہیں آئیں گے اس لئے حکومتی اور عسکری قیادتوں کو امریکہ کو ”نو“ کہنے کا حوصلہ ہوا ہے تو اب اس پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہ کر ملک کے دفاع کی حکمت عملی طے کریں۔ قوم انکے شانہ بشانہ دشمن کے مقابلہ کیلئے تیار ہے۔
او آئی سی سلامتی کونسل میں
مستقل نشست کیلئے کوشش کرے
عالمی حمایت میں ناکامی پر سلامتی کونسل کی مستقل نشست حاصل کرنے کیلئے بھارت کی اُمیدیں زمین بوس ہوگئیں مغربی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان،اٹلی کے یو ایف سی گروپ اور چین نے برازیل، جاپان اور جرمنی کے جی فور ممالک کی کوششیں خاک میں ملا دیں۔ 9نومبر 2010 کو امریکی صدر بارک اوباما نے بھارت کے دورے کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ مجھے اس لمحے کا انتظار ہے جب ایک اصلاح شدہ سلامتی کونسل میں بھارت مستقل رکن کی حیثیت سے شامل ہو،امریکہ کی بہت پرانی خواہش تھی کہ وہ چین کے مقابلے میں سلامتی کونسل میں ایک بااعتماد اور طفیلی ملک کو لائے جو اس کی ہاں میں ہاں ملاتا رہے لہٰذا اس نے چین کے پڑوس میں ہی ایک اتحادی تلاش کیا اور اسے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کیلئے برازیل، جاپان اور جرمنی کے جی فور ممالک کی بڑی تگ و دو کے بعد صرف80 ممالک کی حمایت کر مل سکی۔ جبکہ جنرل اسمبلی میں قرار داد کیلئے128 ووٹ ضروری ہوتے ہیں۔ پاکستان اٹلی کے یو ایف سی گروپ اور چین نے بھارت اور اسکے حواریوں کے خوابوں کو چکنا چور کردیا، امن و سلامتی کے ٹھیکیدار بھارت کی حمایت کرنے والے 80ممالک کی آنکھوں پر پردہ کیوں پڑچکا ہے کہ سلامتی کونسل میں مستقل تو کجا اسکی عارضی جگہ بھی نہیں بنتی کیونکہ اسکی پوری تاریخ پڑوسیوں سے جنگ و جدل اور اقوام متحدہ کے مسلمہ اصولوں کی پامالی سے بھری پڑی ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں اڑا کر کشمیر کے ایک بڑے حصے پر غاصبانہ قبضہ جمالیا اور آج تک وہاں خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔بھارت 63 سال سے اقوام متحدہ کے منشور اور دستور کی دھجیاں اڑا رہا ہے کیا جرمنی کے جی فور ممالک کو ووٹ دیتے وقت بھارت کی یہ ہٹ دھرمیاں نظر نہیں آئیں اب او آئی سی میں شامل ممالک کو ملکر ایک اسلامی ملک کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں، عرب ممالک ترکی، ایران، پاکستان اور انڈونیشیا اگر ملکر کوششیں کریں تو بھارت جیسے مکار کو اس دوڑ سے مستقل آﺅٹ کرکے اسلامی ملک کو لایاجاسکتا ہے۔اس سے او آئی سی بھی مضبوط ہوگی اورکسی بھی اسلامی ملک کے خلاف جارحیت کے دروازے بند ہوجائیں گے۔1982 سے لیکر2006 تک امریکہ نے اسرائیل کے حق میں32دفعہ ویٹو کی طاقت استعمال کی ہے اگر آج کوئی اسلامی ملک سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہوتا تو افغانستان، عراق، کشمیر، فلسطین میں آج مسلمان گاجر مولی کی طرح نہ کاٹے جارہے ہوتے اس لئے او آئی سی متحرک ہوکر ایک اسلامی ملک کیلئے مستقل نشست کی کوشش کرے۔
کشمیر میں ایک اور اسرائیل
بنانے کا امریکی منصوبہ
امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے بارے انکشاف ہوا ہے کہ اس نے 1994ءسے پاکستان سمیت مسلم ملکوں اور چین کے حوالے سے ایک منصوبہ بنایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں یہودیوں کو آباد کرکے ان کیلئے ایک نیا ملک بنایا جائے جو چین اور پاکستان پر نظر رکھے۔امریکی سی آئی اے مسلمانوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ان کی طاقت کو پارہ پارہ کرنے کے منصوبے پر عرصہ دراز سے عمل پیرا ہے۔ 3 جون 1924ءکو خلافت عثمانیہ پر شب خون مار کر مسلمانوں کی قوت مجتمع کو منتشر کیا اور درجن بھر ملک بنا کر مسلمانوں کو کمزور کیا اسی طرح 14 مئی 1948ءکو اسرائیل کے نام سے صہیونی ریاست بنا کر فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا‘ اسی طرح اب سی آئی اے کا 1994ءکو ترتیب دیا گیا منصوبہ خدانخواستہ اگر کامیاب ہو جاتا ہے۔ تو اس سے بھی کشمیری مسلمانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹا جائے گا اور بھارت کو ایک نیا حلیف مل جائے گا۔ جبکہ پاکستان کی بغل میں ایک صہیونی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد اس خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس کا اندازہ فلسطین کے موجودہ حالات کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔امریکہ ایک اور لے پالک بھارت کے ذریعے چین اور پاکستان کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور غیر ملکی امداد سے چلنے والی این جی اوز سی آئی اے کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنے کاموں میں مصروف ہیں‘ اسی طرح اس منصوبے میں بلوچستان کے اندر بھارتی لابی کو مضبوط کرنا اور علیحدگی کی آواز بلند کرنا بھی شامل ہے۔ موجودہ حالات کو اگر دیکھا جائے تو سی آئی اے 1994ءکے پلان پر مکمل طور پر عمل پیرا ہے ہمارے حکمرانوں کو امریکی سازش سے آگاہ رہتے ہوئے جلد از جلد امریکہ اور اس کے کارندوں کو اس خطے سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے اور غیر ملکی این جی اوز کی سرگرمیوں کو بھی مانیٹر کرنا چاہئے۔
کمشنری نظام کی بحالی کا مستحسن فیصلہ
یہ آرڈیننس جاری ہوگیا ہے کہ سندھ میں کمشنری نظام اور کراچی حیدر آباد کی سابقہ حیثیت بحال کردی گئی ہے پاکستان کی یہ بدنصیبی رہی ہے کہ یہاں چلتے گھوڑے کو چابک رسید کیاجاتا ہے، مشرف نے جب حکومت پر قبضہ کیا تب ملک میں کمشنری نظام قائم تھا اور سسٹم بڑی خوش اسلوبی سے چل رہا تھا لیکن پرویز مشرف نے اس کا گلا گھونٹ کر دنیا کو یہ دکھانے اور اپنا عسکری تسلط چھپانے کیلئے کمشنری سسٹم ختم کرکے اُس کی جگہ بنیادی جمہوریت کے علمبردار ناظمین کا ایک جال بچھا دیا، ان ناظموں نے نظام کو جتنا بگاڑا اور اجاڑا اُس کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ ایک چھوٹا سا مکان رکھنے والا ناظم،کئی بنگلوں پلاٹوں اور بینک بیلنس کا مالک بن گیا اور علاقے کی بہتری کے بجائے وہاں کا ناظم بد معاش مشہور ہوگیا۔ کمشنری نظام ایک لگا بندھا سسٹم تھا جس نے معاشرے کو قانون اور نظم و ضبط میں رکھا ہوا تھا، جب تک ملک میں کمشنری سسٹم بحال رہا لوگوں کو وہ شکایات کبھی نہ ہوئیں جو ناظموں کی لوٹ مار کے دوران پیدا ہوتی رہیں، یہ اچھا فیصلہ کیا گیا اور اس کے کراچی کے امن و امان پر نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔