عروس البلاد، روشنیوں کا شہر کراچی، جسے میں حُسنِ بے شمار کہتا تھا ظلم کی آندھیوں کی زد میں ہے، خاک و خوں میں غلطاں نظر آتا ہے۔ کوئی شہر آشوب لکھنے والا بھی نہیں۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ، بے گوروکفن لاشے سڑکیں سنسان اور پرندے کوچ کر چکے۔ زمینی بلاﺅں کے سامنے بے رحم آسماں بے ضرر لگنے لگا۔ ہر چہرہ نوحے کی صورت مائیں کہاں تک ماتم کریں۔ بات کرنے کا یارا نہیں کیا سخن ایجاد کریں!
نہ کوئی اشک ہے باقی نہ ستارا کوئی
اے مرے یار مرے دل کو سہارا کوئی
چاند نکلا نہ سرِبام دیا ہے روشن
شب گزرنے کا وسیلہ نہ اشارہ کوئی
کہنے کو تو کچھ بھی کہا جا سکتا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ اپنوں کی بوئی ہوئی فصل ہے جسے کاٹنا پڑ رہا ہے۔ کراچی میں کبھی قانون کی عملداری نہیں کیونکہ پولیس باقاعدہ واحد سیاسی قوت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ قتل و غارت سے لے کر بھتہ وصولی تک پولیس کی آلہ کار بنی رہی کیونکہ اس کو ملنے والے بونس بھی اسی سے وابستہ تھے۔ پھر ظلم کی ایک حد ہوتی ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ کچھ نے تو یہ صورت قبول کر لی مگر جن کی سرشت میں لڑنا مرنا اور ضد پر اڑنا تھا وہ مقابل کھڑے ہو گئے اور پھر ان کو کمک پہنچنا شروع ہو گئی۔
جب طاقتور کے پاﺅں کے نیچے سے زمین کھسکتی نظر آئی تو اس نے ہاہا کار مچائی اور حکومت کو شک کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا اور مطالبات سامنے رکھ دئیے حکومت نے انہیں مطمئن کرنے کے لئے اپنوں کی قربانی دینے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے قریب ترین آدمی کو وزارت سے ہٹا دیا حالانکہ وہ خدا کی قسمیں کھا کر اپنے معصوم ہونے اور دشمن کے بھتہ خور ہونے کا دعویٰ کرتا رہا۔ دوسری قوت حکومت کی ذہنی حلیف ہے مگر وہ خود اپنے کنٹرول میں بھی نہیں۔ رحمن ملک نے کمال حکمت عملی سے اپنے ہی اتحادیوں کی غارت گری کو طالبان کی کارستانی قرار دے دیا۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ طالبان سراسر ایک مختلف قوت ہے۔ وہ تو اے این پی کے مخالف ہیں۔
ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنے والی ہے کہ یہ بھی امریکہ اور ہندوستان کے ایجنڈے میں شامل ہے کہ فوج کو ایک اور جگہ الجھا دیا جائے۔ تبھی تو فوج کے ترجمان نے برملا کہہ دیا ہے کہ امریکہ فوج کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کا میڈیا رات دن پاکستانی فوج کے خلاف من گھڑت الزامات لگانے میں مصروف ہے۔ یہی وقت ہے جب سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ وہ اپنے اپنے مفادات کے طلسم میں قید ہیں جس کے لئے وہ اپنے دشمن بلکہ قاتل سے بھی بغل گیر ہو جاتے ہیں اور قومی مفاد میں اپنے بھائی کی غلطی کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اقتدار کی ہوس سے نکل کر ملک کا سوچیں کہ اس کی بقا کے ساتھ اُن کی سرداریاں قائم ہیں:
اپنی اپنی انا کو بھلایا جا سکتا تھا
شاید سارا شہر بچایا جا سکتا تھا
دھوپ میں جلنے والو آﺅ بیٹھ کے سوچیں
اس رستے میں پیڑ لگایا جا سکتا تھا
اب بھی وقت ہے کہ پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم اپنے اپنے شرپسندوں کو روک لیں تو کسی چوتھی قوت کے لئے کہیں جگہ نہیں ہے وگرنہ یہ چوتھی قوت جو یکسر شیطانی قوت ہے ہر تباہی پھیلانے والے کے ساتھ ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا نام ہی امن پسندی ہے اور اس وقت اسی کی ضرورت ہے۔ ن لیگ سے بھی دست بستہ گزارش ہے کہ یہ ایڈونچر کرنے کا وقت نہیں ہے ویسے وہ ایسا کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ اپنے اپنے رویوں سے تکبر ختم کرنا ہو گا کہ یہ تو اللہ کو ہرگز پسند نہیں۔
نہ کوئی اشک ہے باقی نہ ستارا کوئی
اے مرے یار مرے دل کو سہارا کوئی
چاند نکلا نہ سرِبام دیا ہے روشن
شب گزرنے کا وسیلہ نہ اشارہ کوئی
کہنے کو تو کچھ بھی کہا جا سکتا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ اپنوں کی بوئی ہوئی فصل ہے جسے کاٹنا پڑ رہا ہے۔ کراچی میں کبھی قانون کی عملداری نہیں کیونکہ پولیس باقاعدہ واحد سیاسی قوت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ قتل و غارت سے لے کر بھتہ وصولی تک پولیس کی آلہ کار بنی رہی کیونکہ اس کو ملنے والے بونس بھی اسی سے وابستہ تھے۔ پھر ظلم کی ایک حد ہوتی ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ کچھ نے تو یہ صورت قبول کر لی مگر جن کی سرشت میں لڑنا مرنا اور ضد پر اڑنا تھا وہ مقابل کھڑے ہو گئے اور پھر ان کو کمک پہنچنا شروع ہو گئی۔
جب طاقتور کے پاﺅں کے نیچے سے زمین کھسکتی نظر آئی تو اس نے ہاہا کار مچائی اور حکومت کو شک کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا اور مطالبات سامنے رکھ دئیے حکومت نے انہیں مطمئن کرنے کے لئے اپنوں کی قربانی دینے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے قریب ترین آدمی کو وزارت سے ہٹا دیا حالانکہ وہ خدا کی قسمیں کھا کر اپنے معصوم ہونے اور دشمن کے بھتہ خور ہونے کا دعویٰ کرتا رہا۔ دوسری قوت حکومت کی ذہنی حلیف ہے مگر وہ خود اپنے کنٹرول میں بھی نہیں۔ رحمن ملک نے کمال حکمت عملی سے اپنے ہی اتحادیوں کی غارت گری کو طالبان کی کارستانی قرار دے دیا۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ طالبان سراسر ایک مختلف قوت ہے۔ وہ تو اے این پی کے مخالف ہیں۔
ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنے والی ہے کہ یہ بھی امریکہ اور ہندوستان کے ایجنڈے میں شامل ہے کہ فوج کو ایک اور جگہ الجھا دیا جائے۔ تبھی تو فوج کے ترجمان نے برملا کہہ دیا ہے کہ امریکہ فوج کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کا میڈیا رات دن پاکستانی فوج کے خلاف من گھڑت الزامات لگانے میں مصروف ہے۔ یہی وقت ہے جب سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ وہ اپنے اپنے مفادات کے طلسم میں قید ہیں جس کے لئے وہ اپنے دشمن بلکہ قاتل سے بھی بغل گیر ہو جاتے ہیں اور قومی مفاد میں اپنے بھائی کی غلطی کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اقتدار کی ہوس سے نکل کر ملک کا سوچیں کہ اس کی بقا کے ساتھ اُن کی سرداریاں قائم ہیں:
اپنی اپنی انا کو بھلایا جا سکتا تھا
شاید سارا شہر بچایا جا سکتا تھا
دھوپ میں جلنے والو آﺅ بیٹھ کے سوچیں
اس رستے میں پیڑ لگایا جا سکتا تھا
اب بھی وقت ہے کہ پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم اپنے اپنے شرپسندوں کو روک لیں تو کسی چوتھی قوت کے لئے کہیں جگہ نہیں ہے وگرنہ یہ چوتھی قوت جو یکسر شیطانی قوت ہے ہر تباہی پھیلانے والے کے ساتھ ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا نام ہی امن پسندی ہے اور اس وقت اسی کی ضرورت ہے۔ ن لیگ سے بھی دست بستہ گزارش ہے کہ یہ ایڈونچر کرنے کا وقت نہیں ہے ویسے وہ ایسا کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ اپنے اپنے رویوں سے تکبر ختم کرنا ہو گا کہ یہ تو اللہ کو ہرگز پسند نہیں۔