واشنگٹن/ نیویارک/ بوسٹن/ کیلیفورنیا (اے پی اے) امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ نے کہا ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے لیکن اوباما انتظامیہ ہتھیاروں کی تجارت کیلئے بین الاقوامی ضابطے وضع کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ دنیا میں روایتی ہتھیاروں کے پھیلاﺅ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز نے انکی روک تھام کیلئے عالمی معاہدے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میں ٹینکوں، جنگی طیاروں اور آتشیں اسلحہ جیسے روایتی ہتھیاروں کا سیلاب آیا ہوا ہے جن کی سالانہ تجارت کا حجم 40 سے 60 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ان ہتھیاروں میں سے کئی شام، سوڈان، کانگو اور دیگر ممالک میں تنازعات کو فروغ دینے اور وہاں ڈھائے جانیوالے مظالم میں استعمال ہورہے ہیں۔ اخبار نے لکھا ہے کہ یہ ہتھیار اب تک لاتعداد لوگوں کی جان لے چکے ہیں اور اگر عالمی برادری نے سرگرمی نہ دکھائی تو یہ ہتھیار مزید لاتعداد لوگوں کی جان لینے کا باعث بنیں گے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ یہ حقیقت مضحکہ خیز ہے کہ تیل سے لیکر غذائی اجناس تک ہر شے کی بین الاقوامی تجارت کیلئے عالمی ضابطے اور قوانین موجود ہیں لیکن روایتی ہتھیاروں کی تجارت اور خریدوفروخت کیلئے کسی عالمی معاہدے کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ اخبار کے مطابق اقوام متحدہ کی گزشتہ ایک دہائی سے جاری کوششوں کے بعد بالآخر ادارے کے رکن ممالک نے روایتی ہتھیاروں کی بین الاقوامی تجارت کو منظم کرنے کیلئے ایک عالمی معاہدے پر رواں ہفتے مذاکرات کئے ہیں تاہم کسی موثر معاہدے پر اتفاق رائے آسان نہیں ہوگا کیونکہ روس، چین، ایران، کیوبا اور پاکستان ہتیھاروں کی فروخت کو انسانی حقوق کی صورتحال سے مشروط کرنے کی تجویز کے مخالف ہیں۔ دریں اثناءامریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ آج سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 20 برس بعد بھی جوہری ہتھیاروں سے لدے امریکہ کے زمین اور سمندر میں نصب بیشتر میزائل تیار حالت میں ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ ایٹمی میزائل تیار حالت میں رکھتا تھا جو محض امریکی صدر کے حکم پر صرف 4 منٹ میں فائر کئے جاسکتے ہیں۔