یہ خط اس پاکستانی کی طرف سے ہے جسے آپ نہیں جانتے اور شائد کبھی جان بھی نہیں سکتے ۔ اس پاکستانی کو پاکستان سے بہت پیار تھا ۔ اور لاہور سے مستقل جدائی کا تصور اس کیلئے موت سے کم نہ تھا ۔ اس پاکستانی کو ، اقربا پروری ، سفارش ، اور نااہل کا قابل کے سر پر باس بن کر بیٹھناہضم نہیں ہوا ،محنت اور جد و جہد سے نہ گھبرانے والے ان لوازمات کے آگے بے بس ہوجاتے ہیں ، سانس لینے کو ہجرت تو کر لی ،مگر اس فیصلے کیساتھ کہ ایک دن سب اچھا ہوجائے گا اور اپنی مٹی کی طرف لوٹ چلیں گے ۔پیپلز پارٹی کے دور ِ حکومت میں لاہور جانے کا رسک کبھی نہیں لیا تھا، لاقانونیت اور کرپشن کا مقابلہ کرنے کی ہمت پہلے بھی نہیں تھی کینڈا کا مساوات پر مبنی معاشرہ دیکھ دیکھ کر اب بالکل بھی نہیں رہ گئی تھی ۔میری بہن جو 12 سال سے برین ٹیومرجیسی موذی بیماری کیساتھ حالت ِ جنگ میں تھی ،ایک منحوس دن اس بیماری سے شکست کھا گئی اور بستر پر پڑ گئی ، ہلنے جلنے اور بولنے کی طاقت چلی گئی ۔اسکی حالت کا سن کر دسمبر 2012 میں آپکے تحت لاہور کی طرف آنا ہوا ۔ وہاں میرا ہیلی کالج ، میرا ایف سی کالج میرا پنجاب بنک تھا ۔ میری کیمپس کی نہر ، میری سڑکیں ، میرے درخت ، میرے قدم اور میری یادیں تھیں ۔ ،میں دسمبر میں وہاں کھڑی تھی مگر میں اس شہر کی نہیں رہی تھی ۔ بہت سال،بہت اقدار اور بہت طور طریقوں کا فرق درمیان میں کھڑا تھا ۔میں کون تھی ؟ لاہور جو میرے اندر رہتا تھا کہاں گیا ؟ کینڈا جہاں میں مسافروں کی طرح رہتی تھی کہ ابھی لاہور واپس جانا ہے ، وہ میرے اندر ڈیرے جمائے بیٹھا تھا۔حالا نکہ آپ نے بڑی بڑی موٹر ویز اور ہیڈ اوور پل بنا دئیے تھے ، کینڈا ،امریکہ جیسی میڑو بھی آنے والی تھی مگرکینڈا کا سا نظام کہاں تھا ؟ نئی نویلی ترقی یافتہ ملکوں جیسی ہو بہو سڑکوں پر بچوں کوترقی یافتہ ملکوں کے کتوں بلیوں سے بھی زیادہ بدتر حالت میں ادھر ادھر روٹی کے ٹکروں کے پیچھے بھاگتے دیکھا تو خادم پنجاب شہباز شریف میرا لاہور میرے اندر ہی کہیں گم ہوگیا ۔ لاہورکے گُم ہونے کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی اور بھی سنئے ۔پاکستان کا بڑا شہر، زندہ دل شہر ، ناکام ہوچکا ہے ۔ وزیرِ اعلی پنجاب آپکی سخت گیری اور ڈسپلن اور پھرتیوں کی کہانیاں آپ کا مورخ لکھتا رہتا ہے اور آپکے پے رول پر وہ آگے بھی لکھتا رہے گا ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ لاہور کو اس سے محبت کرنیوالوں کے دلوں میں گم کر رہے ہیں ۔ آپکی رہائش گاہ ماڈل ٹاﺅن جہاں پر سارے زمانے کی سیکورٹی لگی ہوگی اس سے کچھ فاصلے پر واپڈا ٹاﺅن ہے ۔ آپ کو معلوم ہی ہوگا ۔ اور یہ بھی آپ کو پتہ ہوگا کہ وہاں بھی انسان ہی بستے ہیں ۔ آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر سائنسی اعتبار سے وہ بھی اسی سپی شیز سے تعلق رکھتے ہیں جس سے آپ ۔ واپڈا ٹاﺅن کے چوک پر ایک رکشے کو دن دیہاڑے موٹر سائیکل والے روکتے ہیں ،اس میں دو عورتیں بیٹھی ہیں۔ ادھیڑ عمر کی عورت کو ایک گن مین کہتا ہے کیش نکالو ، وہ کہتی ہے نہیں ہے ، کیونکہ اسکے پرس میں جو کیش ہے وہ اسکے کینڈامیں بیٹھے بیٹے نے سخت محنت کی کمائی کے بعد ماں کو وہاں کی ضرورتیں پوری کرنے کو بھیجا ہے ، مگر ناکام موٹر سائیکل سوار غنڈے جو ناکام نہیں رہنا چاہتے ، اور قاتل بن سکتے ہیں ،چلاتے ہیں "گولی مار دو "ساتھ بیٹھی سارہ کانپ اٹھتی ہے ،پیار کرنیوالی نانی کیلئے ایسے الفاظ ، امی سب کچھ دے دو ۔ ڈاکو امی کا پرس بھی چھین لیتے ہیں اور سارہ کا بھی ۔ سارہ کے بیگ میں سفید اوور کوٹ ہے ۔سر آپ کو پتہ ہی ہوگا کہ میڈیکل کے سٹوڈنٹ سفید اوور کوٹ پہنتے ہیں ۔ اسکے بیگ میں اسکے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔ وہ امی کے پرس سے کیش اور انکے ہاتھوں سے سونے کے کڑے نوچ رہے ہیں۔سارہ کی چادر تھوڑی سی گردن سے ہٹتی ہے ۔سونے کی چین گلے میں نظر آتی ہے۔ ڈاکو اسکی گردن سے وہ بھی نوچ لیتے ہی ۔ سارہ یا امی کا کوئی اور بچہ امی سے کچھ بھی مانگتا ہے تو "نہ"یا نہ ہوسکنا امی کی ڈکشنری میں نہیں ،سب بچوں کیلئے امی ایسی مضبوط ہستی ہیں جو بچوں کیلئے کچھ بھی کر سکتی ہیں ، انکے پاس ہر بچے کی ہر بات کا حل ، مگر سر شہباز شریف آپکے دور ِ حکومت میں امی کی آنکھوں کو سارہ کی گردن سے چین چھیننے کا منظر ملا ، اور سارہ کی آنکھوں نے پہلی بار امی کو بے بس دیکھا ۔جناب یہ دونوں لمبی لائن میں کھڑی ہو کر آپ کو ووٹ دے کر آئیں تھیں ۔ اس امید کے ساتھ کے ہر شہری کی سکیورٹی اور شہر میں امن قائم ہوگا ۔انہوں نے جمہوری طریقے سے آپ کو چنا ، آپکی جمہوریت کہاں تک محدود ہے ؟ کیا صرف لوگوں سے ووٹ لینے کی حد تک ؟ اس ووٹ کے بدلے انہیں کیا مل رہا ہے ؟ electables کو ٹکٹ دے کر،اپنی حکومت تو یقینی بنالی مگر لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروتیں اور زندگی کی سیکورٹی سے اور دور کر دیا گیا ہے ۔ستو کتلا ، جہاںواردات ہوئی وہاں کے ایس ایچ او آپ کو تو پتہ ہی ہوگا ،نہیں پتہ تو گوگل کر کے دیکھ لیں ، موصوف کئی جرائم میں بذات ِ خود ملوث ہے ۔ آپ سارہ اور اسکی نسل کے تمام بچوں کے مجرم ہیں ۔ جو لیپ ٹاپ لے کر بہک گئے ۔ سارا بھی سمجھ گئی ہوگئی کہ ووٹ ایک لیپ ٹاپ سے بکنے والی چیز نہیں ہوتا ۔ ایک سستی روٹی کی سکیم ، ایک موٹر وے ، ہیڈ اوور پُل ، موٹر وے یہ نمائشی کھلونے بے وقعت ہیں جب تک معاشرے میں آپ امن اور سکون لانے کیلئے مستقل بنیادوں پر ایک نظام کی بنیاد نہ ڈالیں ۔بلٹ ٹرین کیلئے آپ کو بیرونی مدد چاہئے ۔ مگر کیا وہ ٹرین پاکستان کو اس وقت چاہیئے ؟ پاکستان کیلئے آپ کا پہلا قدم ااسے بلٹ فر ی بنانا ہونا چاہیئے ۔اس کیلئے آپ کو کسی بیرونی مدد کی بھی ضرورت نہیں ۔ اندرونی نیت چاہئے ۔ آپکی نیت بن سکتی ہے اگر آپ غور کریں کہ اس طرح کے ڈاکوں سے آپ کا کیا نقصان ہورہا ہے ‘ہے ہمت نقصان کا تخمینہ لگانے کی ؟ سارہ وہ بچی ہے جو زندگی میں پہلی دفعہ ووٹ ڈال کر آئی تھی اور اب وہ کہہ رہی ہے میں زندگی بھر کسی کو ووٹ نہیں دوں گی ۔ سارہ کی ماں نے اسے ڈاکٹر بنانے کیلئے دن رات محنت کی تھی ، مگر جس دن سے اس کا میڈیکل میں داخلہ ہوا تھا ، اس دن سے اسکی ماںدماغ کے ٹیومر کی وجہ سے بستر پر بے حس و حرکت پڑی تھی ۔ سارہ کی ہمت درمیان میں ٹوٹتی بھی تھی ۔وہ چین جوآپ کے شہر کے ڈاکو اس سے چھین کر لے گئے۔جناب شہباز شریف صاحب جس خاتون کے ہاتھوں سے کڑے نوچے گئے ، جنہوں نے ساری عمر تعلیم کے فروغ کیلئے وقف کئے رکھی ۔ سونے کے زیوارت کا بہت شوق ہونے کے باوجود کبھی بھی سونا نہیں پہنا ۔ محدود وسائل ہونے کی وجہ سے جو پیسہ تدریس کے پیشے سے کمایا اپنے بچوں کی تعلیم پر لگا دیا ۔سب بچے اعلی تعلیم یافتہ اور سٹیل ہوگئے ۔ بیٹے نے ماں کو کڑے بنوا کر دئے یہ فقط سونا نہیں تھے ،یہ اس عورت کو خراج ِ تحسین تھا جس نے ساری عمر جد وجہد کی اور تعلیم کو پھیلایا ۔آپ کے ملک میں تعلیم پھیلانے والے کی یہی سزا ہونی چایئے تھی کہ اس طرح ہاتھوں سے کڑے نوچے جائیں کہ ان سے خوابوں کا خون نکل جائے ۔ آپکو سارہ کا اعتماد ، امی کے خواب واپس دینے ہونگے ۔ مجھے لاہور آنے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے روک دیا گیا ہے ۔ آپکو میرا لاہور مجھے واپس دینا ہوگا ۔ جب تک میرا لاہور مجھے نہیں ملے گا تب تک سر مایہ کار وہاں کیسے آسکتا ہے ؟یہ ایک کھیل ہے ،ہم خوش عقیدہ لوگوں کا دئیے جلا کے ہوا کی امان میں رکھنا فقط ! ایک گمشدہ پاکستانی ،جسے آپ نہیں جانتے اور شائد جان بھی نہیں سکتے ۔