تخت یا تختہ

 دُنےا مےں دو جُرم اےسے ہےں جو کرتے ہوئے پکڑے جاﺅ تو سزاہے اور کر لو تو مزہ ہے۔ پہلا جُرم ہے " خود کشی " اور دوسرا " بغاوت۔ خودکشی کرنے کی صورت مےں دُنےا کے تمام مسائل ومشکلات سے چھٹکارہ مِل جاتا ہے جبکہ اگر ےہ کوشش ناکام ہو جائے تو سزا دی جاتی ہے۔ دوسری جانب بغاوت اےک اےسا جُرم ہے جو اگر ہو جائے تو اقتدار حاصل ہو جاتاہے۔ کچھ اےسی ہی صورتحال ہمارے ملک کے سےاسی نظام کی بھی ہے۔
جمہورےت پر شب خون مارنے کی رواےت برسوں سے چلی آرہی ہے۔ وطن عزےز مےں ہمےشہ اےک اےسا طبقہ موجود رہا ہے جو عوامی منتخب نمائندوں کے خلاف برسرِ پےکار رہتا ہے۔ ےہ ہمہ وقت سازشوں مےں اُلجھا رہتاہے۔ اسکا مقصد ملک کو ترقی و خوشحالی سے نکال کر پتھر کے دور مےں لیکر جانا ہوتاہے۔ ماضی مےں اےسی ہی کئی سازشوں کا پتہ چلتا ہے جنہوں نے ملک کے جمہوری عمل کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دےا۔ کہےں تو اےک منتخب وزےر اعظم کو پھانسی پر لٹکاےا گےا اور کہےں دوسرے کو بمع اہل و عےال جلاوطن کردےا گےا۔ ملک کے اندر تمام تر تباہی و بربادی فرد واحد کی آمرانہ سوچ کی بدولت ہے۔ ےہ عنصر محض حکومتےں بنانے ، گرانے مےں ہی نہےں بلکہ ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی مےں ےہی سوچ کار فرما رہتی ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی شخص کسی ادارے کے سربراہ کے طور پر اپنا عہدہ سنبھالتا ہے تو وہ سابق سربراہ کی پالےسےوں کو ےکسر نظر انداز کرتے ہوئے نئے احکامات اور پالےسےوں کو نافذ کردےتا ہے ۔ اسکی سوچ اور تصورات سب پر مسلط کر دئےے جاتے ہےں ۔ اسکو جو صحےح لگتا ہے وہ سب کیلئے صحےح اورجو غلط لگتا ہے وہ سب کیلئے غلط لگتاہے۔ اےسی ہی اےک مثال ہمارے محکمہ پولےس کی بھی ہے اگر اےک آئی جی عوامی تحفظ کے پےش نظر ناکے لگواتاہے تو اسکے بعد آنیوالا نےا آئی جی اِن کو ہٹوا دےتا ہے کہ اس سے عوام کو بے جا تنگ کےا جاتا ہے اور ےہ اِنکی پرےشانی کا باعث بھی بنتے ہےں۔
اگر کوئی حکمران عوامی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنا بھی چاہے تو وطن مخالف قوتےں اس کو ہٹانے کے دَر پے ہو جاتی ہےں ۔ وزےر اعظم کا عہدہ اےک باوقار اور قابل احترام حےثےت کا حامل ہوتاہے۔ ےہ عوام کی اکثرےت رائے سے منتخب کےا جاتا ہے لےکن حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد ےہی حکمران غداری کے مرتکب قرار دےے جاتے ہےں ۔ ان پر نا اہلی و کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے ذلےل ورُسوا کےا جاتا ہے۔ انکو قےدوبند کی صعوبتےں برداشت کرنے کیساتھ ساتھ من گھڑت مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جن کے نتےجے مےں انکو بدترےن سزائےں دی جاتی ہےں جبکہ درحقےقت غداری و بغاوت کے مرتکب تو ےہ شرپسند عناصر ہےں جو کہ صرف عوام کے منتخب حکمرانوں کا تختہ اُلٹنے کے بعد غےر آئےنی طور پر مُلک کا اقتدارسنبھال لےتے ہےں بلکہ مُلک آئےن معطل کرنے کا بھی سنگےن جُرم کرتے ہےں ۔
اےسی ہی صورتحال نواز شرےف کے سابقہ دورِ حکومت مےں بھی دےکھنے کو مِلی جب اسوقت کے چےف آف آرمی جنرل پروےز مشرف نے اُنکی حکومت گرانے کے بعد طاقت کے بل بوتے پر ملک کی باگ ڈور سنبھال لی اور اپنے اس فعل کو درست ثابت کرنے کیلئے ان پر من گھڑت اور سنگےن بہتان لگا کر نام نہاد مقدمات بھی چلا دئےے ۔ نتےجتاًاس خاندان کو اےک آمر کے جارحانہ عمل کے ہاتھوں مجبور ہو کر جلاوطن ہونا پڑا نواز شرےف کا دوبارہ اقتدار مےںآنا ےہ ثابت کرتا ہے کہ مشرف نے جو کچھ بھی ماضی مےں کےا وہ اےک آمرانہ سوچ رکھنے والے فردِواحد کا غاصبانہ عمل تھاجس کی عوام نے نہ تو حماےت کی اور نہ ہی کبھی اس کو نےا حکمران ہی تسلےم کےا اگر حکومت اور عدلےہ تمام آئےنی وقانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے پروےز مشرف کو قرار واقعی سزا دےنے مےں کامےاب ہو گئے تو ےہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دُنےا کے سےاسی و جمہوری نظام کیلئے اےک بہت بڑی مثال بنے گا اور ساتھ ہی ان شرپسند عناصر کیلئے عبرت ناک سبق ہوگا جو معاشرے کے ستون ہلانے اورمحب وطن حکمرانوں کا تختہ اُلٹنے مےں مصروفِ عمل رہتے ہےں ۔

ای پیپر دی نیشن