انسان تو بہرحال انسان ہے۔ کبھی اس پر نسیان غالب آتا ہے تو یہ خطا کا پتلا نجانے کتنے گمراہ رویوں کو اپنی زندگی کی اساس بنا لینا ہے۔ اس کی عزت اور وقار اسی فریب ذات کے اندھیروں میں غلطاں رہتا ہے۔ یہ حیوانیت پر اتر آتا ہے اور پھر حیوانیت کے بھی کم ترین درجے کو اپنی کامیابی گردانتا ہے پھر اس کا دشمن ازلی ابلیس اسے ابلیسی رقص پر آمادہ کرتا ہے اور یوں انسانی تاریخ پر بغاوت و طغیان کی کہانیاں مرتب ہوتی ہیں۔ پھر یہ انسان تھک جاتا ہے اور پھر وہ امن کی فضاﺅں کا متلاشی ہوتا ہے اور سلامتی کی وادیوں کا مقیم بننا چاہتا ہے۔
ہم اس دور کے انسان اجالا مانگتے ہیں اس مرکز عشق سے جسے دنیا مدینہ منورہ کے پرکشش، روح افزا اور رفیع المرتبت نام سے جانتی ہے۔ یہ مدینہ منورہ ہے یہ نور کا مرکز پاکیزگی کا مرکز اعظم ہے۔ یہاں عقلوں کا شعور تقسیم ہوتا ہے اور دلوں کو نور اللہ کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ اہل تقوی کو قربت خداوندی کی دائمی نعمت نصیب ہوتی ہے اور گنہگاروں پر سے گناہوں کی گرد جھاڑ کر شفاعت کے ساگر میں نہلایا جاتا ہے۔ مایوسی کی مکدر چادر ہٹا کر نور کا دوشالا اوڑھا دیا جاتا ہے۔ اسی لئے تو گناہوں سے آلودہ بے چارگی کے مارے امتی یا نبی، یا نبی پکارتے دامن دامن رحمت و رافت میں پناہ مانگنے مدینہ عالیہ کی جانب کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔
مجھے ایک حاضر باش درویش نے بہت رازدارانہ انداز سے نصحیت کی۔
”دیکھو مدینہ مشرفہ میں حاضری تب قبول ہوتی ہے جب مدینہ عالیہ کو اندر اتار لیا جائے ورنہ ظاہر کی قیمت تو بہت عارضی ہے“
اس مرتبہ کی حاضری میں اب میں راہ جنت نہیں، مکان جنت کو اپنے اندر اترتا ہوا محسوس کر رہا تھا باب جبرئیل سے جنت البقیع کا راستہ صراط جنت کہلاتا ہے۔ ہمیشہ ہی کرم رہا کہ جبرئیلی ملکوتی فضاﺅں سے گزر کر جنت البقیع کے مکینوں کا سراپا باطن کی دنیا میں اترتا پایا ہے۔ اہل بیت کے مقابر سے لے کر عشاقان سرفروش کی خاک کحل البصر بناتی ہے۔ حجرہ رسول کی تربت تو رشک عرشیاں ہے۔ اہل بقیع کے فرحت مدار مزارات کی خاک بھی فرشیوں کو رشک سامانی عطا کرتی ہے۔
مدینہ طیبہ نے سب شہروں کو ہی اپنے میں نہیں سمویا ہے بلکہ ان کے مقدر کے رزق کا سب سے بڑا مرکز مدینہ شریف ہے۔ ہر رنگ ہر نسل اور ہر قامت و قدر کا انسان ادب کی متاع بے بہا سے مخمور ہوتے مدینہ طیبہ میں نظر آئے گا۔ گویا نمائندہ دنیا کا ہر وجود طیبہ نگری میں دنیائے رحمت کا باشند ہے۔
حضور داعی حق ہیں۔ دعوت دین کے لئے قرابت داروں کی ضیافت کی تھی۔ یہ دستر خوان کی وسعت دعوت دین کا قرینہ اولین ہے۔ مدینہ طیبہ میں یہ قرینہ صدیوں سے عالمین پناہ کے قدمین مبارکین میں نظر آتا ہے۔ مسجد رسول میں لوگ دستر خوان بچھاتے ہیں۔ قہوہ، کھجور، زمزم شریف اور دہی سے تواضح ہوتی ہے۔ خارج مسجد جن پرتکلف کھانوں کا اہتمام ہوتا ہے تو آسمانی من وسلوی کی زمینی مدنی تفصیلات نظر آتی ہیں۔ عرب مہمان نواز ہیں اور برکت رسول سے دل نواز بھی ہیں۔ یہ نسبت رسول کریم کا اعجاز ہے کہ عرب امرا اور ان کے شہزادے فقیران مصطفی کے سامنے دست بستہ باادب کھڑے لجاجت سے دسترخوان پر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ایک بات ہے اور یہ بات معاشیات کی دنیا میں امن و خیر کی نسیم برکت کا باعث ہے۔ کسی مرید مصطفی نے عرض کیا تھا کہ اے خواجہ کونین فرمائیے کہ سب سے اچھا درجہ اسلام کیا ہے؟ خواجہ ہر دوگیتی نے جواب باصواب فرمایا کہ.... لوگوں کو کھانا کھلانا۔
اور اللہ تعالی نے بھی عشاق کے لئے معیار اظہار کھانا کھلانا ہی بتایا ہے۔ کھانا سب کے لئے یہ اسلامی معیشت کا درس اول ہے۔ مدینہ عالیہ اس قانون کا سب سے بڑا عملی شارح ہے۔ عطائے رب سے قاسم رزق کے دستر خوان کی برکات ہر نئے لمحے میں بڑھتی جائیں گی۔
آسمان خوان، زمیں خواں، زمانہ مہمان
صاحب خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا
اور یوں ہوتا ہے تو دلوں کا رزق طابہ مقدسہ کی باادب حاضری ہے وہ اپنی نورانی تشنگی کو سیرابی میں بدلتے ہیں۔ اور حلقہ دوستاں میں باوقار ہوتے ہیں اور خاکی دستر خوان مصطفی پر جسم و جان پروری کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور فضائے مدینہ میں نوری رزق جزو بدن بنا کر کائنات دل کو روشن کرتے ہیں۔
کھانے والے غلام ابن غلام اور اہتمام پر مامور سکنہ بند غلام ابن غلام، ایک ایسے ہی سکنہ وراثتی غلام میاں حنیف فیصل آبادی سے ملاقات ہوئی جنہیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ....
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
میاں حنیف کا دسترخوان ذوالعشیرہ دسترخوان کی خیرات ہے۔ نہایت عمدہ و لذیذ پاکستانی کھانے رات بھر دستر خوان کو آباد رکھتے ہیں۔ بیٹھ کر کھا لیں تو تب کھانے والوں کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور کسی کو گھر کے لئے طلب سے سوا دینا اس دستر خوان کا خاصہ ہے۔ اہل عرب اس دستر خوان کو رشک سے دیکھتے ہیں۔ دامن محبوب کو خدا نے وسعتیں بخشی ہیں۔ یہ اس بخشش الہی کا فیضان ہے۔ خدمت گار تو خدمت بجا لاتے ہیں لیکن میاں حنیف خانہ زاد غلاموں کی طرح یوں مستعد پھرتا ہے جیسے کوئی غیبی طاقت اسے نہ بیٹھنے پر مجبور کرتی ہو۔ ایک روز فقیر راقم نے بھی دستر خوان پر خدمت سرانجام دینے کا ارادہ کیا اور اپنے منجھلے بیٹے اسامہ غازی کو معاونت کے لئے ساتھ لیا۔
میرے عزیزالقدر دلی دوست اسلم ترین ایڈیشنل آئی جی نے بھی اپنے بیٹے دانش کے ساتھ مل کر چلنے کا پروگرام بنایا۔ ہم چار تھے اور بہت مستعدی سے یہ خدمت سرانجام دے رہے تھے لیکن جلد ہی میاں حنیف کے مقابلے میں ناچار تھے۔ اسامہ غازی اور دانش حیرت و استعجاب میں ڈوبے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ میاں حنیف کے انسانی جسم میں کوئی ملکوتی قوت کام کرتی ہے یہ شخص نہ رات کو سوتا ہے اور نہ دن میں کبھی سکون سے بیٹھتا ہے۔ بس حرکت، حرکت اور پاک و صالح حرکت۔ میں نے بچوں کو سمجھایا کہ یہ شخص زندگی کی حقیقت کو سمجھتا ہے کہ....
راہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
یہ نفع بخش وجود سستی اور کاہلی سے ہمیشہ جہاد کرتے ہیں اور بارگاہ خیرالوری میں نیاز مندانہ اور خانہ زاد غلامانہ طرز ادب اختیار کرتے ہیں، یہ لوگ قابل رشک ہیں۔