پاک فوج کی شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی آپریشن ”ضربِ عضب“ کے نام سے پوری کامیابی سے جاری ہے۔ اس آپریشن کو پوری قوم کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ شمالی وزیرستان قبائلی علاقوں کی سات ایجنسیوں میں سے ایک بڑی ایجنسی ہے جہاں کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا اس فوجی کاروائی کے نتیجے میں یہاں کی مقامی آبادی کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے اور اب تک تقریباً آٹھ لاکھ کے قریب افراد ہجرت کرکے بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت اور ملحقہ علاقوں میں آ چُکے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا اپنا گھر بار چھوڑنا متوقع تو تھا مگر یہ کسی المیے سے کم نہیں۔ حکومت اور بالخصوص فوج نے گذشتہ کئی سالوں کے دوران شمالی وزیرستان کے لوگوں کو حتی المقدور کوشش کی کہ وہ اپنے علاقوں سے ملکی اور غیر ملکی دہشتگردوں کو نکال باہر کر دیں تاکہ اس صورتحال سے بچا جا سکے مگر بدقسمتی سے ایسانہ ہو سکا اور بالآخر یہ انتہائی اقدام اُٹھانا پڑا۔ اس آپریشن میں تاخیر کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگوں کو نقل مکانی سے بچایا جا سکے مگر افسوس کہ ملکی سلامتی کیلئے یہ اقدام ناگزیر تھا۔ اپنا گھر ہر کسی کا خواب ہوتا ہے اور جب اُسے اس حالت میں چھوڑا جائے کہ واپسی کا پتہ نہ ہو اور جب واپسی ہو بھی تو گھر کے بچا رہنے کا یقین بھی نہ ہو تو ایسے میں ایک انسان کی ذہنی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں مخصوص سماجی اور علاقائی طرزِزندگی کیوجہ سے گھر بنانا کوئی آسان کام نہیں بعض اوقات تو ایک نسل مکان بناتی ہے اور دوسری اُس میں رہتی ہے۔ لوگوں کے وسائل انتہائی محدود ہیں اور سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر۔ یہ لوگ اپنے سماجی اور مذہبی پسِ منظر کی بدولت اپنے علاقوں تک ہی محدود رہ کر زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کوئی بھی فوجی کارروائی اپنے پیچھے تباہی وبربادی کا ایک وسیع سلسلہ چھوڑ جاتی ہے جسے بحال کرنے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں اور پہلے والی بات پھر بھی نہیں رہتی۔ 2010 میں جنوبی وزیرستان میں اسی طرح کے فوجی آپریشن کی بدولت محسود قبیلے کی آبادی کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا اور آج چار سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی وہ لوگ اپنے گھروں کو واپس نہیں آ سکے اور اس دوران اُنکے گھر تقریباً منہدم ہو چُکے ہیں۔ حکومت اور فوج نے اُنہیں واپس لانے اور دوبارہ سے آباد کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے مگر امن و امان اور چند دوسرے مسائل کی بنا پر فی الحال ایسا نہیں ہو سکا۔ تہذیب و تمدن، روایات حتیٰ کہ ہر چیز بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے شمالی وزیرستان کے مہاجرین کے خدشات اور شکایات بجا ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ سب کسی نے خوشی اور شوق سے نہیں کیا بلکہ اس صورتحال سے بچنے کیلئے ہر ممکن کو شش کی گئی۔ جنوبی وزیرستان کے احمدزئی وزیر قبائل نے اس سلسلے میں دانشمندی سے کام لیا اور آخرکا ر حکومت سے تعاون کیا جس کی وجہ سے وہاں کی آبادی نہ صرف نقل مکانی سے بچ گئی بلکہ کافی حدتک پُرامن زندگی گزار رہی ہے جبکہ اُنکے ہمسائے میں بسنے والے محسود قبائل نے اسکے برعکس طرزِ عمل اپنایا اور نتیجتاً بھاری نقصان اُٹھایا۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا ہجرت کرنا ایک بڑا انسانی المیہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے بھر پور اور جنگی بُنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ موسم کی شدت اور ماہِ رمضان کیوجہ سے مسائل اور بھی گھمبیر ہو گئے ہیں۔ چونکہ آپریشنل ضرورت کے تحت Secrecy ایک لازمی جزو ہوتا ہے۔ لہٰذا اس نقل مکانی کیلئے پہلے سے اُس طرح پلاننگ نہیں کی جا سکی جس کی ضرورت تھی۔ چونکہ پوری قوم اس فوجی کارروائی میں پاک فوج کے ساتھ ہے لہٰذا اپنے ان مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی مدد کا جذبہ بھی بے مثال ہے۔ یہ لوگ یقیناً ہمارے محسن ہیں جنہوں نے پاکستان کی سلامتی اور پائیدارامن کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑا ہے۔ ان متاثرین کی دیکھ بھال کی ذمہ داری پاک فوج کو سونپی گئی ہے کیونکہ اور کسی ادارے کے پاس اس طرح کی منظم استعداد نہیں ہے۔ چونکہ یہ لوگ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے سے ہجرت کر کے آئے ہیں لہذا اُن کی پوری طرح سے دیکھ بھال کی بنیادی ذمہ داری بھی وفاقی حکومت ہی کی ہے۔ بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور ملحقہ علاقے چونکہ خیبر پی کے میں آتے ہیں اس وجہ سے وہاں کی صوبائی حکومت بھی اس سارے عمل میں براہِ راست شریک ہے۔ وفاقی، صوبائی حکومتیں اور پاک فوج ہر ممکن کوشش میں مصروف ہیں کہ جس حد تک ہو سکے ان متاثرین کی دیکھ بھال کی جا سکے۔ ملک کی بہت ساری سماجی بھلائی کی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں، دوسری صوبائی حکومتیں اور مخیر حضرات بھی اس عمل میں پوری طرح سے شریک ہیں۔ یہ انسانی المیہ جہاں ہمارے لئے بہت ساری مشکلات لے کر آیا ہے وہیں پر یہ ایک چیلنج بھی ہے۔ ہمارے لئے بحیثیت ملک اور قوم دُنیا کو یہ بھی دکھانے کا موقع ہے کہ پاکستانی قوم بڑی سے بڑی مشکل صورتحال سے احسن طریقے کے ساتھ نمٹنا جانتی ہے۔ ہمارا مذہب، تہذیب اور روایات بھی ہمیں یہی سبق دیتے ہیں کہ مصیبت کی گھڑی میں انسانیت کی مدد کیسے کی جاتی ہے اور جب یہ لوگ اپنے ہی بھائی بہن ہوں تو جذبہ اور ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ، میڈیا، سیاسی وسماجی تنظیمیں اور معاشرے کا ہر طبقہ اس کارِ خیر میں متحد ہو جائے تاکہ متاثرین کی بھرپور مدد کی جا سکے۔ خصوصاً سیاسی جماعتوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سیاست اور پوائنٹ سکورنگ کی بجائے مل جُل کر کام کیا جائے۔