کراچی (کامرس رپورٹر+ نیوز ایجنسیاں) سٹیٹ بینک آف پاکستان نے معیشت کی کیفیت پر تیسری سہ ماہی رپورٹ برائے مالی سال2013-14 جاری کر دی جس کے مطابق پاکستانی معیشت نے بظاہر نیا موڑ کاٹا ہے۔ معاشی سرگرمیوں کی بحالی میں مالی سال 2013-14 میں اہم پیش رفت ہوئی۔ حقیقی جی ڈی پی نمو 4.1 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو پانچ سال کی بلند ترین نمو ہے، معیشت بہتر ہوئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ معیشت میں بہتری توانائی کی قلت سے نمٹنے کے لیے حکومت کے عزم، کاروبار دوست پالیسیوں کے بڑھتے ہوئے تاثر اور بیرونی رقوم کی آمد کا نتیجہ ہے جو حال ہی میں موصول ہوئی ہیں۔ تھری جی؍ فور جی لائسنسوں کی نیلامی، یورو بانڈ کے توسط سے توقع سے بڑھ کر آمد رقوم، بین الاقوامی مالی اداروں سے پروگرام قرضوں اور زر مبادلہ کو سہارا دینے کی سٹیٹ بینک کی کوششوں نے ملک کے بیرونی شعبے کے تناظر کو بہت بہتر بنایا ہے اور کسی قدر مالیاتی پوزیشن کو بھی۔ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ بہتری کی ان علامات کی بنا پر معیشت کو درپیش مشکلات نظرانداز نہیں کی جانی چاہئیں اور بے حد ضروری ساختی اصلاحات کی کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔ رپورٹ کے مطابق ان رقوم کی آمد سے نہ صرف شرح مبادلہ مستحکم ہوئی سٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر بھی تیزی سے بڑھ گئے۔ 30 مئی 2014ء کو سٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر 8.7 ارب ڈالر ہو گئے۔ پاکستانی روپے کی قدر بڑھنے سے کاروباری احساسات بہتر ہوئے جس سے گرانی کی توقعات قابو میں آگئیں۔ جولائی تا مارچ 14ء کے دوران اوسط گرانی 8.6 فیصد تھی۔ مستقبل میں پاکستانی روپے کا استحکام ، تیل کی مستحکم بین الاقوامی قیمتیں اور اجناس کی معتدل عالمی قیمتیںگرانی کی توقعات کو قابو میں رکھیں گی۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء کے پہلے نو ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا صرف 3.2 فیصد تھا جو گذشتہ پانچ برسوں کے اوسط خسارے سے خاصا کم ہے۔ تاہم رپورٹ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی کہ اخراجات کے حوالے سے مالیاتی استحکام کی کوششوں کے باوجود ٹیکس کی وصولی کی کارکردگی اب بھی قابل رشک نہیں۔ ایف بی آر کو وصولی میں رساؤ کو روکنے اور تمام مالی سودوں کی دستاویزیت کے سلسلے میں ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں ۔جہاں تک مالکاری کا تعلق ہے، جولائی تا مارچ حکومت نے زیادہ تر ملکی وسائل پر انحصار کیا۔ بیرونی مالکاری یورو بانڈ کے اجرا، بین الاقوامی مالی اداروں سے نئے قرضوں اور دوطرفہ امداد کی وجہ سے بڑھ گئی۔ وسائل کی قلت سے دوچار معیشت کے لیے بیرونی رقوم کی آمد کی بحالی اہمیت رکھتی ہے لیکن اس سے پاکستان کی بیرونی مقروضیت میں اضافہ ہو گا۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں اس امر کو اجاگر کیا گیا کہ مجموعی سرکاری قرضہ (بیرونی اور ملکی) جی ڈی پی کے 60 فیصد سے پہلے ہی تجاوز کر چکا ہے جو مالیاتی ذمہ داری و تحدید قرضہ ایکٹ (2005ئ) کی مالی سال2012-13اور اس سے آگے کے لیے مقرر کردہ حد ہے۔ چنانچہ بیرونی قرضے میں اضافے کے ساتھ کم از کم ملکی واجب الادا قرضے میں اتنی ہی کمی کی جانی چاہیے۔ نومبر 2013ء میں آئی ایم ایف کو بھاری ادائیگیاں کم ہونے سے توازن ادائیگی پر دباؤ بھی گھٹ گیا اور ملک میں بیرونی گرانٹس، قرضے اور بیرونی سرمایہ کاری (جیسے یورو بانڈ) آنے لگی۔ رپورٹ میں اس بہتری کا اعتراف کرتے ہوئے ساختی مسائل سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا گیا جو پاکستانی معیشت کے لیے مسلسل دشواریاں پیدا کر رہے ہیں۔ پالیسی سازوں کو ایک صنعتی پالیسی تشکیل دینی چاہیے جس میں پیداواری کارگزاری اور روزگار کی تخلیق کو ترجیح دی جائے کیونکہ مسائل اب بھی موجود ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق مجموعی سرکاری قرض جی ڈی پی کے 60 فیصد سے پہلے ہی تجاوز کر چکے ہیں جو مالیاتی ذمہ داری اور تجدید قرضہ ایکٹ کی مقررہ حد سے زائد ہے۔ خسارے میں جانے والی سرکاری کارپوریشنز کی تشکیل نو کرنی چاہیے۔