مجھے لگتا ہے کہ اب ہفت روزہ رسالوں، ماہنامہ اور سہ ماہی رسالوں کا زمانہ نہیں رہا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کتاب کی اہمیت کم ہو گئی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کتاب ہمیشہ زندہ رہے گی۔ کتاب اور خواب زندگی کی علامت ہیں۔ اور تعبیروں سے بھی زیادہ اہمیت خواب کی ہے۔ خواب دیکھنا اور کتاب پڑھنا کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ زندگی ہے تو آرزو بھی رہے گی۔ آرزو اور خواہش میں تھوڑا سا فرق ہے۔ جو دل والے ہی جانتے ہیں۔ آج بھی میرے پاس ڈاک میں کتابوں اور رسالوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔ خط نہیں آتے مگر کتاب اور رسالہ قرطاس ضرور آتا ہے۔ میرے گھر میں دس بارہ اخبارات بھی آتے ہیں اور ہر اخبار کے ساتھ اتوار کے روز ایک میگزین بھی ہوتا ہے جو باقاعدہ ایک ادبی رسالے کی طرح لگتا ہے۔ نوائے وقت کے ساتھ تو ندائے ملت، پھول اور فیملی بھی آتا ہے۔ یہ اخبار سے مختلف رسالے ہیں مگر نوائے وقت کے ساتھ ان کی نسبت اتنی مضبوط ہے کہ اس کا حصہ لگتے ہیں۔
سب سے زیادہ ادبی رسالوں کی آہستہ آہستہ ”موت“ واقع ہو رہی ہے۔ ایک زمانے میں نقوش، فنون، اوراق، ادب لطیف، سویرا شائع ہوتا تھا اور ادیبوں میں ایک رابطے کا کردار باقی تھا۔ اب یہ رسالے محمد طفیل، احمد ندیم قاسمی کے چلے جانے کے بعد تقریباً ایک بھولی ہوئی کہانی بن گئے ہیں۔ ادب لطیف صدیقہ بیگم، فنون ڈاکٹر ناہید قاسمی ، اوراق سلیم آغا شائع کرتے رہتے ہیں مگر لگتا ہے کہ ان زندہ ادبی رسالوں کا زمانہ ختم ہو گیا۔ ”تخلیق“ برادرم اظہر جاوید کی یاد دلاتا ہے۔ اب سونان اظہر جاوید بڑی محبت سے یہ کام آگے بڑھا رہے ہیں۔ ”بیاض“ مرحوم خالد احمد کی یاد دلاتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی زندگی میں ہی یہ رسالہ اپنی پہچان بنا چکا تھا۔ بالکل ایک مختلف اشاعتی منظر نامہ سامنے آیا۔ خالد احمد ایک زندہ جاوید آدمی تھا۔ اس کے برادر نسبتی عمران منظور نے اپنے بے تاب بھائی نعمان منظور کو اپنا مددگار بنا کے بیاض کو زندہ رکھا۔ اعجاز رضوی بھی ان کے ساتھ ساتھ ہے۔ اب وہ خالد احمد کو زندہ تر رکھنے کے لئے ”بیاض“ کو دگنی محنت اور محبت سے شائع کیا کریں۔ خالد احمد ایوارڈ کا بھی اجرا کیا گیا ہے۔ یہ بھی بیاض کو زندگی دینے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ آج بیاض ایک انوکھا اور مقبول ادبی رسالہ ہے۔ میرے خیال میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ گوجرانوالہ سے ”نوائے ادب“ کو باقاعدہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک رسالہ قرطاس نامور شاعر جان کاشمیری بھی گوجرانوالہ سے شائع کرتے ہیں۔ لاہور سے تنویر ظہور ”سانجھاں“ کے نام سے پنجابی میں ایک رسالہ نکالتے ہیں جس میں اردو کو بھی پوری نمائندگی دی جاتی ہے۔ راولپنڈی سے ”انس“ شائع ہوتا ہے۔
میرے ضلع میانوالی سے ایک بہت حوصلے والی خاتون ڈاکٹر عالیہ قیصر ایک ادبی رسالہ باقاعدگی سے شائع کرتی ہیں۔ ”سوجھلا“ نام سے یہ روشنی مجھ تک بھی پہنچتی ہے۔ ”سوجھلا“ میں زیادہ تر خواتین لکھنے والی اور خاص طور پر میانوالی کی نمائندہ خواتین کی تحریریں شائع ہوتی ہیں مگر اس میں ملک بھر سے مختلف تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ لاہور سے بہت معروف اور ممتاز شاعرہ ایم زیڈ کنول میانوالی گئیں اور ایک قومی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ارم نیازی کا نام بھی رسالے میں نظر آتا ہے۔
ایک رسالہ ”بجنگ آمد“ کے نام سے نامور شاعر اور دانشور اختر شمار شائع کرتے تھے۔ پھر وہ مصر چلے گئے اور ان کے بہت زوردار کالم مختلف اخبارات میں نظر آئے۔ نوائے وقت نے بھی یہ کالم چھاپے ۔ اور اب بجنگ آمد پھر منظر عام پر آیا ہے اور ادبی حلقوں میں ایک کھلبلی مچ گئی ہے۔ یہ ایک مختصر مگر بہت موثر اشاعت ہے جو شعروادب کے لوگوں کو چونکا دینے کے لئے کافی ہے۔ ”بجنگ آمد“ نام ہی ایسا ہے جو مقابلے میں آنے کی دعوت دیتا ہے مگر اب مقابلہ کرنا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہم ڈاکٹر اختر شمار کے ساتھ کھڑے ہیں۔
”تارکین وطن“ کی ایک بہت خوبصورت اشاعت کے لئے میں نے کہا تھا اسے دیکھ کر تارک وطن ہونے کے لئے جی کرتا ہے۔ افتخار مجاز۔ ایڈیٹر منظور شاہد کے ساتھ ساتھ ہیں وہاں اقبال راہی بھی نظر آتے ہیں۔ یہ رسالہ ادبی ہے مگر ”غیر ادبی“ بھی ہے کہ بیرون ملک کی سرگرمیاں اس میں دکھائی دیتی ہیں۔ ہمیں ہر سرگرمی ادبی سرگرمی لگتی ہے۔ ایک اچھی بھلی خاتون سے پوچھا گیا کہ ادب سے بھی کوئی لگاﺅ ہے۔ اس نے کہا کہ میں بڑوں کا بڑا ادب کرتی ہوں۔ جو رسالہ بھی آتا ہے اس میں ادبی ٹچ ہوتا ہے۔ بہادر دانشور اور پنجابی سے محبت کرنے والے مدثر اقبال بٹ کے لئے معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ ادیب شاعر پہلے ہے یا صحافی؟ ادب و صحافت کی سرحدیں اس نے رلا ملا دی ہیں۔ ”پوسٹ مارٹم“ اور ”بھلیکھا“ کے ساتھ ساتھ خوبصورت دلہن کی طرح ”ناگ منی“ بھی شائع کیا جاتا ہے۔ ورلڈ پنجابی یونین بھی اس نے شروع کی ہے اور فلاحی کام بھی کئے ہیں۔ آج کل ایک جدید فلاحی ہسپتال غریب بستی ”ڈبن پورہ“ میں قائم کیا ہے۔ وہاں بٹ صاحب کا دفتر بھی ہے۔
بھکر سے دلیر اور دانشور صحافی حفیظ اللہ شاہ مقامی نوعیت کے پرچے شائع کرتے ہیں۔ بھکر ٹائمز کے ساتھ ”سانول“ سانول موڑ مہاراںاب لاہور سے بھی اس نے رسالہ شروع کیا ہے اور بڑی تیزی سے کامیاب ہو رہا ہے۔
کچھ رسالے قومی حیثیت رکھتے ہیں مگر وہ کسی نہ کسی ادارے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ”نظریہ پاکستان“ نظریہ پاکستان ٹرسٹ والوں کا ہے۔ ترجمانی ادارے کی اور نمائندگی قومی جذبات کی ہوتی ہے۔ شاہد رشید اس کے مدیر ہیں۔ ایک بہت باقاعدہ اور نمائندہ رسالہ ”لاہور“ بھی ہے جو ضلعی حکومت کا ترجمان ہے۔ ڈاکٹر ندیم گیلانی اس کے مدیر ہیں۔ ضلعی حکومت اور پنجاب حکومت کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کے لئے بھی کچھ صفحات مخصوص کئے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ رسالہ لاہور کے افسروں اور حکمرانوں کی تصویروں کے علاوہ ٹوٹے پھوٹے خوابوں کی تعبیروں کو بھی جگہ دیتا ہے۔ ندیم گیلانی خود ایک قابل ذکر شاعر اور دوست آدمی ہے۔
ادبی رسالوں کے علاوہ مذہبی رسالے بھی بہت آتے ہیں اور یہ غنیمت ہے کہ لوگ اس معاملے میں سرگرم اور مخلص ہیں۔ نعت خواں اور نعت گو شاعر مجدد نعت حفیظ تائب کے نیازمند سرور نقشبندی ”مدحت“ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرتے ہیں جو عشق رسول کی حرارت زندہ رکھنے کا کام دیتا ہے۔ اس میں نعت کے حوالے سے محبتوں کے کئی چراغ روشن ہوتے ہیں سب سے زیادہ روشنی والا چراغ حفیظ تائب کی نعت ہے۔ انہوں نے نعت کو عشق رسول بڑھانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس عہد میں نعت کو اس قدر مقبولیت حاصل ہے۔ اس کا کریڈٹ حفیظ تائب کو جاتا ہے۔ سرور نقشبندی نے اس مشن کو جاری رکھنے میں بڑا کام کیا۔
محکمہ اوقاف اور مذہبی امور کی طرف سے ”معارف اولیا“ بھی ایک مقتدر کوشش ہے جو باقاعدگی سے ہو رہی ہے۔ ”معارف اولیاءاللہ کی تعلیمات فیوض و برکات اور روحانی صدقات لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اس کے لئے طاہر رضا بخاری مبارکباد کے مستحق ہیں۔ وہ رسالے کے ایڈیٹر ہیں۔ انہیں برادرم محمد عارف سیالوی کی مخلصانہ معاونت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی رسالوں کی ایک بڑی تعداد شائع ہوتی ہے۔ یہ نیکی بھی ہے اور ذوق اسلامی کی دلیل بھی ہے۔
کچھ معروف طبی اداروں کے ترجمان رسالے بھی ہیں۔ ”ہمدرد“ بہت باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ حکیم محمد سعید شہید نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ رسالہ پاکستان کا ہم عصر ہے۔ اب سعدیہ راشد ہمدرد کے دوسرے معاملات میں ذاتی دلچسپی کے ساتھ ساتھ اس رسالے کے لئے بھی بہت خیال رکھتی ہیں۔ لاہور میں برادرم علی بخاری ان سب معاملات کو دیکھتے ہیں۔ لوگ بخاری صاحب سے محبت رکھتے ہیں۔ حجاز ہسپتال کی طرف سے ایک رسالہ ”حجاز“ شائع ہوتا ہے۔ انعام الٰہی اثر جانتے ہیں کہ اس طرح حجاز ہسپتال کے لئے ایک بہتر صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ نوائے وقت کی کالم نگار مسرت قیوم اس رسالے کی ایڈیٹر ہیں۔ وہ ہسپتال کے سارے معاملات میں کوشاں رہتی ہیں۔
ہومیوپیتھی کے حوالے سے بھی ایک آدھ رسالہ میری طرف آتا ہے مگر ہومیوپیتھی کے ذکر سے مجھے ایک شخص یاد آتا ہے ڈاکٹر حامد الیاس مسعود ذوق و شوق کے آدمی ہیں۔ ان سے ملاقات میں زندگی کی بات بھی ہوتی تھی۔ میں ان سے اپنے وقت کے مطابق نہ مل سکا اور پھر شرم کے مارے ان کے پاس نہ گیا۔ نوائے وقت کے کالم نگار نواز میرانی اور امیر نواز نیازی بھی میری طرح ان سے بہت نیازمندی رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے سامنے جا کر بے نیازیاں بھی نیازمندیاں بن جاتی ہیں۔