وزیراعظم ایدھی کا خواب پورا کردیں!

Jul 11, 2016

نازیہ مصطفٰی

88برس قبل میں بھارتی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کپڑے کے ایک تاجر کے گھر جنم لینے والے بچے کے بارے میں کون جانتا تھاکہ وہ بڑا ہوکر ناصرف اپنے خاندان کا نام روشن کرے گا بلکہ اپنی قوم کیلئے بھی سرمایہ افتخار ثابت ہوگا۔ ماں اسکول جاتے وقت اُسے دو پیسے دیتی تھی تو وہ اُن دو پیسوں میں سے ایک پیسہ خرچ کر لیتااور دوسرا پیسہ کسی حاجت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے الگ کرلیتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایثار اور قربانی کی یہ عادت اُس کے اندر اتنی راسخ ہوگئی کہ چھوٹی عمر میں ہی اُس نے خود سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا جو آنے والی زندگی میں اُس کیلئے کامیابی کی کنجی ثابت ہوا۔انہتر برس پہلے ہندوستان تقسیم ہوا تو قیام پاکستان کے تیسرے روز ہی وہ ”بانٹوا“ چھوڑ کر ملک خداد داد پاکستان کے دارالحکومت کراچی منتقل ہوگیا۔جہاں پہلے تو اُس نے بندوں کے ساتھ تجارت کی لیکن اِس دنیاوی تجارت میں دل نہ لگا تو خدا سے ”تجارت“ (یعنی اللہ کی راہ میں اپنا وقت، ہمت اور جمع پونجی خرچ کرنے کا کام) شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اِسی سلسلے میں 1951ءمیں اُس نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خرید کر ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری سے دکھی انسانیت کی خدمت کا کام شروع کیا۔ 1957ءمیں کراچی میں بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی تو اُس نے مخیر حضرات کی مدد سے شہر کے نواح میں خیمے لگواکرمدافعتی ادویہ کی مفت فراہمی شروع کردی۔ ایک مخیر کاروباری شخصیت نے اُسے بڑی امدادی رقم دی تو اُس نے ایک ایمبولینس خریدلی اور اُسے خود چلاکر زخمیوں اور بیماروں کو اسپتال منتقل کرنے کا کام شروع کردیا۔ اُس کے جذبے اور کام کو دیکھتے ہوئے کراچی کے بعد پورے ملک سے مخیر حضرات نے اُس کی مدد کرنا شروع کردی۔ اس کام سے ہی دراصل اُس فلاحی فاو¿نڈیشن کا باقاعدہ آغاز ہوا جس نے اپنے کاموں سے ایک دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالے رکھا۔سادگی اور دکھی انسانیت کی خدمت میں اپنی مثال آپ یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان میں خدمت خلق کے شعبہ کی جانی پہچانی شخصیت عبدالستار ایدھی تھے۔ کیلنڈر پر دن، مہ و سال بدلتے گئے اور آنے والوں برسوں میں ایدھی فاو¿نڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں میں پھیلتی ہوئی دنیا کے دوسرے ممالک تک بھی پہنچنا شروع ہوگئی۔ اِس وقت ایدھی فاو¿نڈیشن کے پاس سینکڑوں ایمبولینسیں ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئیں ہیں اور گینز بک ریکارڈ کے مطابق یہ دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔ملک بھر میں 335 ایدھی سینٹرز اور بڑے شہروں میں 17 ایدھی ہومز ہیں۔ ایدھی فاو¿نڈیشن میں 2000 ملازمین کام کرتے ہیں۔چار ہوائی جہاز، 1800 ایمبولینسز، کینسر ہسپتال، ہوم فار ہوم لیس، ایدھی شیلٹرز اور ایدھی ویلج ، ایدھی چائلڈ ہوم ، بلقیس ایدھی میٹرنٹی ہوم، ایدھی فری لیبارٹری، ایدھی فری لنگر اور ایدھی ویٹنری اسپتال کام کر رہے ہیں۔سیلاب اور سمندری حادثات کے موقع پر ریسکیو کے لیے کشتیاں بھی موجود ہیں۔اسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاو¿نڈیشن نے پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بنک، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور اسکول بھی کھول رکھے ہیں۔ اِن مراکز میں نادار، بے سہارا اور مستحق بچیوں کو نرسنگ اور گھر داری کے کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔ ایدھی مراکز کے باہر بچہ گاڑی کا اہتمام کیا گیا تا کہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہ کرسکے اپنے بچے وہاں چھوڑ جائے، ایدھی نے ایسے بچوں کیلئے مفت تعلیم، رہائش اور روزگار کا اہتمام کرنا شروع کیا۔ ایدھی سینٹرز کے باہر رکھے جھولوں کے بارے میں ایدھی کہتے تھے کہ ”اپنے بچے کو کبھی کوڑے میں مت پھینکو، قتل مت کرو بلکہ اُسے جھولے میں ڈال دو“۔عبدالستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی ٹرسٹ کے مرکز میں میٹرنٹی ہوم چلاتی ہیں، جہاں سالانہ تقریباً ڈھائی سو بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے سپرد کیا جاتا ہے۔ ایدھی ہومز اور ویلفیئر سینٹرز میں دس ہزار کے لگ بھگ ایسے بچوں اور مرد وخواتین کو سائبان بھی فراہم کیا جاتا ہے جو لاوارث ہوتے ہیں یا کسی وجہ سے اُن کے خاندان والے خود اُنہیںایدھی سینٹر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ فلاحی کی خدمت خلق کی اتنی بڑی”ایمپائر“قائم کرنے اور شہرت و عزت کے بام عروج پر پہنچنے کے باوجود ایدھی صاحب نے اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا۔ ایدھی فاو¿نڈیشن کا کروڑوں روپے کا بجٹ رکھنے کے باوجود وہ اپنی ذات پر ایک پیسہ خرچ نہ کرتے تھے۔سادہ روایتی پاکستانی لباس پہنتے اور لباس بھی وہ کہ جس کے صرف دو جوڑے اُن کی ملکیت تھے، گزشتہ بیس برسوں سے انہوں نے جوتے تبدیل نہ کیے تھے۔ ایک مرتبہ افغانستان میں ایدھی مرکز کے افتتا ح کے وقت عملہ نے مہمانوں اور صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے مہنگی کرسیاں خرید لیں لیکن ایدھی صاحب وہاں پہنچے تو ضرورتمندوں کی رقم کرسیوں پر خرچ کرنے پر سخت خفا ہوئے،اور اِس پر بھی خود کو ہی قصوروار سمجھتے رہے اور خود کو سزا دینے کیلئے اُس رات ایدھی صاحب ایمبولینسوں کے ڈرائیوروں کے ساتھ کلینک کے فرش پرہی سوگئے۔ ایدھی صاحب ایک درویش صفت انسان تھے، انہوں نے اپنے فلاحی کاموں کیلئے ساری عمر حکومتوں سے امداد نہ لی، تو پھر بھلا اپنے ذاتی کام کیلئے وہ سرکار سے کیسے مدد لے لیتے؟ شاید اِسی لیے جب گردوں کے مرض میں مبتلا ہوکر ایدھی صاحب اسپتال میں داخل ہوئے تو انہوں نے سندھ حکومت کی جانب سے بیرون ملک علاج کروانے کی پیشکش بھی مسترد کردی تھی۔ جس شخص نے اپنی زندگی میں حکومت سے کسی قسم کی کوئی مدد نہ لی ہو بھلا اُسے مرنے کے بعد حکومتی مدد کی ضرورت کہاں پڑسکتی تھی؟ اِس کے باوجود عبدالستار ایدھی کی پورے قومی و سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کا فیصلہ یقینا مستحسن اور لائق تحسین تھا، ساری زندگی اعزازات سے دور بھاگنے والے عبدالستار ایدھی بجا طور پر اِس قومی و سرکاری اعزاز کے مستحق تھے۔ عبدالستار ایدھی کی وفات پر اپنے تعزیتی پیغام میں وزیراعظم نواز شریف نے بجا کہا کہ ”ایدھی صاحب کی وفات سے پاکستان ایک بے لوث شخص سے محروم ہو گیا ہے، عبدالستار ایدھی ملک کا اثاثہ تھے اور وہ معاشرے کے پریشان حال، بے یارومددگار اور غریب طبقے کے لیے پیار اور ہمدردی کی جیتی جاگتی مثال تھے،عبدالستار ایدھی کا انتقال پاکستان کے عوام کے لیے وہ نقصان ہے جس کی تلافی ہونا شاید ممکن نہیں“۔ وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے عبدالستار ایدھی کے انتقال پر ملک بھر میں ایک دن کا سوگ منانے کا اعلان کرنے کے علاوہ ایدھی صاحب کیلئے پاکستان کے بڑے سول اعزاز ”نشانِ امتیاز“ کا بھی اعلان کیا، اس کے علاوہ عبدالستار ایدھی کے نام کی ڈاک ٹکٹ بھی جاری ہونگی جبکہ وزیراعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے بھی فلاحی خدمات کے اعتراف میں لاہور کی مصروف اور مشہور شاہراہ کو ایدھی صاحب کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا ۔ 

قارئین کرام!! ایدھی صاحب کے جانے سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ پورا کرنا ممکن نہیں لیکن اُن کے انتقال سے قوم کا جو نقصان ہوا ہے اُس کی تلافی ایدھی صاحب کا خواب پورا کرکے کی جاسکتی ہے۔ ایدھی صاحب ملک کو ترقی یافتہ، خوشحال اور فلاحی پاکستان کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ جہاں ایدھی صاحب کے یوم وفات (یعنی 8جولائی) کو خدمت خلق کا قومی دن قرار دے کر ایدھی صاحب کو خراج تحسین پیش کیا جاسکتا ہے، وہیں، وہیں پاکستان کے ہر 50کلومیٹر کے علاقے میں نادار، مستحق اور بے سہارا افراد کیلئے جدید سہولیات سے مزین ایک بہترین ہسپتال قائم کرکے ایدھی صاحب کا خواب بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے دل کے کامیاب آپریشن اور صحت یابی کے بعد وطن واپسی پر ایدھی صاحب کی طرح خدمت کی نئی تاریخ رقم کرنے کا اعلان ہے،یہ تاریخ یقینا رقم ہو سکتی ہے، بس وزیراعظم نواز شریف ایدھی صاحب کا خواب پورا کر دیں۔

مزیدخبریں