تہوار ناصرف لوگوں کو آپس میں گھلنے ملنے کا موقع دیتے ہیں بلکہ ان کی ثقافتی اور علاقائی تہذیب کے آئینہ دار بھی ہوتے ہیں۔ کچھ تہوار بہت مضحکہ خیز لگتے ہیں۔ تاہم ان کے منانے کے پیچھے کوئی نہ کوئی زبردست وجہ ہوتی ہے۔ بڑا عجیب لگتا ہے جب لوگ اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر بیلوں کے آگے دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ کوئی ان کے پا¶ں کے نیچے روندا جاتا ہے اور کوئی ان کے سینگوں پر لٹکا نظر آتا ہے۔ دیکھنے والے اس عمل سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ گوریلوں کو بڑے اہتمام سے کدو پیش کئے جاتے ہیں۔ کتوں کی دوڑ کے مقابلے کروائے جاتے ہیں۔ ٹماٹر مار مار کے ایک دوسرے کو ٹماٹر رنگ کر دیا جاتا ہے۔ مردوں کی یاد میں منائے گئے تہواروں میں مردوں جیسا رنگ ڈھنگ اختیار کر لیا جاتا ہے۔ لوگوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ تہواروں میں لوگ اپنا رنگ ڈھنگ ہی بدل لیتے ہیں۔ قدیم مصری تہذیب جسے فراعین کی تہذیب کہا جا سکتا ہے ‘میں بھی زبردست تہوار منائے جاتے تھے۔ ان میں سب سے اہم فرعونوں کی تاجپوشی کا تہوار تھا۔ سب سے پہلے سبکدوش ہونے والے یا ہارنے والے بادشاہ کو ایک روایتی ڈنڈے کے ساتھ مار گرایا جاتا۔ پھر محل کی سفید دیواروں کے گرد کسی مقدس چیز جیسا کہ کسی دیوی دیوتا کے مجسمے کو طواف کروایا جاتا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایسا کرنے سے ان کے نئے بادشاہ کا دور حکومت دیوتا¶ں کے زیر سایہ رہے گا۔ اس کے بعد نئے بادشاہ کو عوام کے سامنے پیش کر کے باقاعدہ اس کی بادشاہت کا اعلان کیا جاتا۔ آخر میں کھانے سے لوگوں کی تواضح کی جاتی۔ٹیکس وصول کرنے کا رواج قدیم مصر میں بھی تھا کیونکہ بغیر ٹیکس وصول کئے حکومتی اخراجات کا پورا ہونا ہمیشہ سے ہی ناممکن رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے بادشاہ خود مضافاتی علاقوں میں جاتا اور لوگوں کے مال مویشیوں کی گنتی کرتا۔ دور دراز علاقوں میں اس کے مصاحبین اس کام کو سرانجام دیتے۔ اسے باقاعدہ تہوار کا درجہ حاصل ہوتا اور”مویشی گننے کا تہوار“ کہلاتا تھا۔ یہ سالانہ بھی منایا جاتا رہا اور دو سال بعد بھی اس کا انعقاد ہوتا رہا۔ ایک اور تہوار جسے ”وادی کا خوبصورت تہوار“ کہا جاتا تھا۔ اسے زیادہ تر حکمران طبقہ ہی مناتا تھا۔ اس کا مقصد اپنے فوت شدہ بزرگوں کی یاد منانا تھا۔ بادشاہ اپنے درباریوں کے ساتھ جلوس کی شکل میں اپنے بزرگوں کے درباروں پر حاضری دیتا اور وہاں چڑھاوے چڑھاتا۔ وہاں پورا پورا دن گزارا جاتا۔ ڈھول باجوں اور ناچ گانے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے لئے دعوت کا انتظام بھی ہوتا اور سارا دن میلے کا سماں رہا کرتا۔ یہ تہوار سولہویں سے تیرہویں صدی قبل مسیح کے دوران قدیم مصر کے دارالحکومت Thebes موجودہ Luxor میں پورے جوش و خروش سے منایا جاتا رہا۔ فرعون کا ایک اور اہم تہوار ”مِن فیسٹول“ تھا یہ تہوار موسم گرما کے آخری مہینے میں منایا جاتا تھا جس کامقصد رزق میں خیرو برکت اور فراوانی کا حصول ہوتا تھا۔ مطلوبہ دن بادشاہ اپنی ملکہ‘ خاندان اور درباریوں کے ساتھ دیوتا¶ں کی عبادت کیلئے جلوس کی شکل میں روانہ ہوتا۔ جب وہ زرخیزی کے دیوتا کے حلقہ اثر میں پہنچتا تو عبادت میں مشغول ہو جاتا۔ وہاں چڑھاوے چڑھائے جاتے۔ خوشبویات جلائی جاتیں اور گانے بجانے کا اہتمام کیا جاتا۔ پھر دیوتا کے مجسمے کو مندر سے نکالا جاتا اور اسے ایک بہت بڑی ڈولی نما شیلڈ کے اوپر رکھا جاتا۔ اس مجسمے کے سامنے فرعونوں کے بھی دو مجسمے رکھے جاتے۔ اس شیلڈ کو بائیس معتبر ترین پادری اٹھاتے اور جلوس آگے کی طرف روانہ ہو جاتا۔ ان پادریوں کے آگے ناچنے گانے والوں کاایک بہت بڑا جلوس ہوتا۔ اس جلوس سے بھی آگے ایک سفید بیل پر بادشاہ سوار ہوا چل رہا ہوتا جس کے ساتھ ساتھ درباری اور بادشاہ کے محافظ چل رہے ہوتے۔ بیل بہت فربہ ہوتا جسے خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا۔ اس کے سینگوں میں ایک بہت بڑی سولر ڈسک لگی ہوتی جو سورج کی روشنی کو تیزی سے منعکس کرتی اور علامتی طور پر ہر طرف خوشحالی پھیلا رہی ہوتی۔ یہ جلوس مختلف دیوتا¶ںکے مندروں کے پاس سے گزرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچتا۔ منزل پر پہنچنے کے بعد فرعون‘ دیوتا¶ں کے لئے قربانی پیش کرتا اور آخری مندر کا پادری فرعون کو اناج کا ایک پیکٹ دیتا جس کا مقصد آنے والے سال کیلئے زمین کی زرخیزی ہوتا۔