ترجیحات

ایک مستطیل میز کے گرد ملک کے بیس بائیس جذبہ¿ حب الوطنی سے سرشار دانشور بیٹھے تھے۔ اس بات پر غور و فکر جاری تھا کہ قوم میں اخلاقی زوال، سائنس و ٹیکنالوجی میں دلچسپی کی کمی، غربت میں اضافے، صحت کی سہولتوں کے فقدان، شرح خواندگی میں اضافہ نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔ ہر دانشور اپنی فہم و فراست کے مطابق وجوہات بیان کر رہا تھا۔ حالات کی بہتری کےلئے تجاویز بھی دی جا رہی تھیں۔
غور و فکر جاری تھا ....
٭٭٭
وزیراعظم سیکرٹریٹ میں آنے والی درخواستوں کی جانچ پڑتال کی جا ر ہی تھی۔
٭.... ایک درخواست ایک یونیورسٹی کے طالب علم کی طرف سے تھی۔ اُس نے دعویٰ کیا تھا کہ اُس نے ایسی ایجاد کا بنیادی فارمولا دریافت کیا ہے کہ جس سے موسمی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ اس ایجادکے مزید تجربات کے لئے اگر اسے دس لاکھ روپے فراہم کر دیئے جائیں تو نہ صرف وطن عزیز میں اس ایجاد سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے بلکہ دوسرے ملکوں سے کروڑوں روپے زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ اور دو تین سائنسدانوں کے تصدیقی سرٹیفکیٹس بھی ہمراہ تھے۔
٭.... ایک سماجی تنظیم نے درخواست کی تھی کہ نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کے بڑھتے ہوئےے رجحان کے پیش انہوں نے مخیر حضرات کے تعاون سے رقم جمع کی ہے اگر انہیں تھوڑی سرکاری زمین الاٹ کر دی جائے تو وہاں منشیات کے نقصانات سے آگہی اور مریضوں کی بحالی کے لئے مرکز قائم کرنا چاہتے ہیں۔
٭.... قومی سطح پرسائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے کام کرنے والے ادارے نے دو کروڑ روپے گرانٹ کی درخواست کی تھی تاکہ منصوبوں کو جاری رکھا جا سکے۔
٭.... ایک این جی او نے ایک ایسے علاقے میں لڑکیوں کا سکول کھولنے کے لئے امداد کی درخواست کی تھی جہاں لڑکیوں کا سکول کئی کلومیٹر دور تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ سکول کے قیام کے بعد وہ اسے اپنی مدد آپ کے تحت چلائیں گےے اور مزید امداد کی درخواست نہیں کریں گے۔
٭.... ایک ادبی تنظیم نے ادبی رسالے کے اجرائ، ادبی اےوارڈز اور ادبی تقریبات کےلئے چند لاکھ روپے امداد کی درخواست کی تھی۔
٭.... ایک سماجی تنظیم نے غریبوں کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرنے والے اپنے ہسپتال میں ایک جدید مشین کی تنصیب کے رقم یا مشین کی فراہمی کی د رخواست کی تھی۔
٭.... کچھ رخواستیں ان اہم افراد کی طرف سے تھیں جنہوں نے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دی تھیں۔ قومی و بین الاقوامی ماہرین نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا تھا اور ان کےلئے حکومتی سطح پر سول ایوارڈز دینے کی سفارش کی گئی تھی۔
سماجی شعبوں میں کام کرنے والے تقریباً سب ہی افراد کا ذریعہ معاش کچھ اور تھا اور وہ سماجی خدمات کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے۔
٭.... چند درخواستیں ایسے مریضوں کی طرف سے تھیں جن کا علاج ملک میں ممکن نہیں تھا اور ڈاکٹروں نے انہیں علاج کےلئے بیرون ملک بھجوانے کی سفارش کی تھی۔ ان کی زندگیاں بچانے کےلئے چند لاکھ روپوں کی ضرورت تھی۔
وزیراعظم سیکرٹریٹ کے عملے نے ہر طرح سے جانچ پڑتال کر کے درخواستوں کی شارٹ لسٹ تیار کی۔ ایسے افراد اور اداروں کی درخواستیں منتخب کی گئیں جو ہر طرح سے میرٹ پر پورا اترتے تھے۔ انکی دیانت اور لیاقت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی۔ بیرون ملک علاج کےلئے مستحق بچوں اور نوجوان مریضوں کا انتخاب کیا گیا تھا تاکہ وہ تندرست ہو کر زیادہ عرصہ زندہ رہیں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ تمام درخواستوں کی مجموعی مالی امداد کی رقم دس بارہ کروڑ سے زیادہ نہ تھی۔
وزیراعظم کی خدمت میں جب ان درخواستوں کی سمری پیش کی گئی تو وہ چیمپئنز ٹرافی کا فائنل دیکھ رہے تھے۔ اس سمری کو دیکھ کر وزیراعظم کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات اُبھرے۔ انہوں نے یہ کہہ کر سمری مسترد کر دی کہ ملکی خزانہ اس بوجھ کا متحمل نہیں ہو سکتا اور دوبارہ کرکٹ میچ دیکھنے لگے کیونکہ انہیں علم و ادب‘ سائنس و ٹیکنالوجی‘ تعلیم و تمدن اور انسانی جانوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ دلچسپی تھی تو صرف کرکٹ سے۔ یہی نہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن اور اسی طرح کے دیگر اداروں کی منظور شدہ گرانٹ میں بھی کٹوتی کر دی گئی۔
٭٭٭
چند دن بعد وفاقی دارالحکومت میں ایک عظیم الشان تقریب منعقد ہو رہی تھی۔ کرکٹ ٹیم کے تمام کھلاڑی، کرکٹ بورڈ کے افسران اور انکے اہل خانہ ،فنکار‘ وزراءوغیرہ کثیر تعداد میں موجود تھے۔ انہیں فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا۔ آمدورفت کیلئے ہوائی جہازوں کے ٹکٹ دئیے گئے تھے۔ ٹیم میں ایسے کھلاڑی بھی تھے جنہوں نے سپاٹ فکسنگ کر کے ملک کو بدنام کیا تھا۔ ایسے بھی تھے جن کی کارکردگی مایوس کن رہی تھی۔ ان کو بھاری تنخواہوں کے علاوہ مراعات اور ہر میچ کھیلنے کا معقول معاوضہ ملتا تھا۔ کھیلنا اور جیتنا ان کی ذمہ داری تھی۔ وزیراعظم ہر کھلاڑی کو ایک کروڑ روپے کا چیک اور میڈل دے ر ہے تھے۔ ٹیم کے چند کھلاڑیوں کو سول ایوارڈ دینے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ اپنی صلاحیتوں یا اتفاقی طور پر فائنل میچ جیتنے والی ٹیم اور انتظامیہ کو انعامات دینے کیلئے قومی خزانے سے پچیس تیس کروڑ روپے لٹا دئیے گئے تھے۔
٭٭٭
مختلف تعمیری منصوبوں کے لئے درخواستیں دینے والے بھی چینلز پر اس تقریب کی کارروائی دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھیں نم تھیں۔ زندگی بچانے کے لیے بیرون ملک علاج کے لئے درخواستیں دینے والوں کی آنکھیں تو مایوسی اور نااُمیدی سے چھلک ہی پڑی تھیں۔

ای پیپر دی نیشن