اس سانحہ میں وفات پانے والوں کی تعداد اخباری اطلاعات کے مطابق 200ہو گئی ہے اور اس میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ زخمی ہونیوالوں کی حالت بہت خراب تھی۔ زندہ جسم کا جلنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس کا احساس صرف جلنے والے کو ہی ہو سکتا ہے۔ بڑے بڑے بیانات دینے والوں کو نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے گنہگاروں کو اسی وجہ سے آگ سے ڈرایا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق جہنم کی آگ کا زیادہ ایندھن انسان ہونگے۔ یہ ذکر بھی ہے کہ جو مال و زر کو حکم ربی کے مطابق خرچ کرنے کی بجائے جمع کرکے رکھیں گے۔یہ شدید گرم سکوںکی صورت میں انکی پیشانی، سینے اور پیٹھوںپر لگا کر ان کو داغا جائیگا۔ الامان و الحفیظ۔ابتدائی معلومات کے مطابق 25000/- لیٹر پٹرول لیکر جانے والا ٹینکر احمد پور شرقیہ کے قریب علی الصبح سڑک کے کنارے الٹ گیا۔ جس سے بڑی مقدار میں تیل بہنے لگا۔ جسکو دیکھ کر قریبی آبادی کے لوگ، چھوٹے بڑے سب، خواتین و حضرات، اپنے اپنے برتن لیکے تیل لوٹنے کیلئے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ 35 منٹ تک یہ کھیل جاری رہا۔ کہ ایک شخص نے تیل پر جلتی سیگریٹ پھینک دی۔ بہرحال کسی وجہ سے دھماکہ ہوا۔ جس نے قرب و جوار کی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر چیز جل کر خاکستر ہو گئی۔ اور ہر طرف کہرام مچ گیا۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ فوراً لقمہ اجل بن گئے۔ اور 100 کے قریب موٹر سائیکل اور گاڑیاں بھی جل کر راکھ بن گئیں۔
جناب وزیراعلیٰ موقع پر پہنچے۔ ضلعی انتظامیہ پہلے ہی پہنچ کر حسب استعداد کاروائیاں کر رہی تھی۔ انہوں نے ہسپتال میں داخل مریضوں کی عیادت بھی کی اور مرنے والوں کیلئے مبلغ 20 ، 20، لاکھ اور زخمیوں کیلئے 10،10 لاکھ روپے فی کس مالی امداد کا اعلان کیا۔ وزیراعظم جو عمرہ کے بعد عید منانے اور اپنے نواسے جنید صفدر کے ایک فنکشن کے سلسلہ میں انگلستان میں تھے۔ اپنا دورہ مختصر کرکے بہاولپور پہنچے۔ موقعہ بھی دیکھا۔ ہسپتال بھی گئے اور متاثرین میں چیک بھی تقسیم کئے۔ متاثرین کے لواحقین چاہتے تھے کہ وزیراعظم ان کی دلجوئی کریں۔ جو نہ ہو سکی۔ عید سے ایک د و روز پہلے کوئٹہ، پاراچنار اور احمد پور شرقیہ میں اتنے بڑے حادثات نے قوم کو سوگوار کر دیا۔ عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار ٹیلیو یژن پر سننا اور دیکھنا ہی ناقابل برداشت ہو رہا تھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ ہر پاکستانی کے ذہن میں بے شمار سوالات سر اٹھا رہے تھے کہ یہ حادثہ کیوں ہوا ہے؟ کیا اس سے بچا جا سکتا تھا؟ کیا اس پر فوری ایسے اقدامات اٹھائے جا سکتے تھے کہ جو ہوا ہے وہ نہ ہوتا؟ اور یہ کہ مناسب طبی سہولتیں دستیاب ہونے کی صورت میںانسانی زندگیوں کانقصان کم ہو سکتا تھا۔ برن یونٹ زیادہ ہونے کی صورت میں زخمیوں کی اذیت ناک حالت کے دورانیہ میں کمی لائی جا سکتی تھی؟ کیا یہ پہلا واقعہ تھا۔ ایسے واقعات ان سڑکوں پر اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ کیا متعلقہ حکام نے اسکے تدارک کا کوئی انتظام کیا تھا۔ سب سے بڑا سوال یہ کہ اس سب کا ذمے وار کون ہے۔ کیا یہ درست ہے کہ جوسب سے بڑا ہے۔ وہی سب سے بڑا ذمے دار ہے۔ لیکن وہ تو مانتا ہی نہیں۔ وہ تو کوئی ذمے داری لیتا ہی نہیں۔ لمبے لمبے قیمتی اشتہارات معہ فوٹو چھپوا کر صرف credit لیتا ہے۔ چاہے اشتہار میں لکھے ہوئے دعوے بالکل کھوکھلے ہی ہوں۔
جناب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب دونوں سگے بھائی ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہوئے موقع پر فرماتے ہیں کہ یہ وقت سیاست کا نہیں۔ لیکن یہ وقوعہ گزشہ 70 سال کی کرپشن اور نا اہلی کا نتیجہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ عجیب رواج پڑ گیا ہے کہ سارے سیاستدان سیاست کر بھی رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسر ے پربے وقت کی سیاست کرنے کا الزام بھی لگائے چلے جاتے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کے مخالفین نے فوراً پھیتی کسی کہ حضور ان 70 سالوں میں آدھے سے زیادہ عرصہ آپ کی حکمرانی رہی ہے۔ خاص کر موجودہ وقت سے لیکر ماضی قریب میںتو آپ ہی کی بادشاہی رہی ہے۔
یہ الزام تسلسل سے لگ رہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے حصہ کا بجٹ وسطی پنجاب خاص کر لاہور میں لگایا جا رہا ہے پھر یہ کہ میٹروبس اور میٹروٹرین اور سڑکوں پر سارا بجٹ خرچ کیا جا رہا ہے۔ اور تعلیم وصحت جو بنیادی انسانی ضرورت ہیں۔ ان کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ حادثہ کا علاقہ پس ماندہ ترین اور وہاں کے باسی غریب ترین لوگ ہیں۔ بے انتہا غربت اور لالچ ہی کی وجہ سے وہ تیل اکٹھا کرنے چڑھ دوڑے۔ وہ یہ بے ایمانی کر سکتے تھے بڑے لوگ بڑی بری وارداتیں کرتے ہیں۔ پھر بھی بچ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے لیکن ہم ناقص العقل انسان اس کے نظام کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بڑا چور بلکہ ڈاکو وہ سیاستدان ہو یا غیر سیاستدان۔ اسکو اتنی بڑی سزا کم ہی ملتی دیکھی گئی ہے جتنی ان غریب، بے آسرا اور بے سہارا لوگوں کو ملی ہے۔
ہماری درخواست ہے کہ بطور نمونہ کسی بس، ٹرک، ٹرالر یا ڈرائیور سے شمالی علاقہ سے کراچی تک کے سفر کا حساب کا پرچہ ملاحظہ فرمائیں۔ آنکھیں کھل جائیں گی۔ گاڑی کی چیکنگ برائے فٹنس اور ڈرائیور کی جسمانی ذہنی حالت کو ٹھیک رکھنے کیلئے کوئی انتظام نہ ہے۔ پس ماندہ علاقوں میں حضور صحت اور تعلیم کیلئے زیادہ رقم دیں۔ سارے علاقہ میں صرف ایک برن یونٹ۔ کچھ خدا کا خوف کریں۔ بڑے لوگ تو چھوٹی تکلیف کیلئے دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں۔ اور جو لوگ آپ کو مسند اقتدار میں بٹھاتے ہیں۔ ان کو آسانی سے مرنے کی بھی سہولت موجود نہ ہے۔یہ ایک ٹریفک کا حادثہ تھا۔ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے حادثات ہر روز ہو تے رہتے ہیں جس میں ایک مہینہ کے اندر سینکڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اور متعلقہ محکمہ جات نے ان کے تدارک کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھا رکھا۔ خدا کیلئے اس طرف توجہ فرمائیں۔ اسکے بغیر گڈ گورننس مکمل نہیں ہوتی۔ سڑکیں ٹھیک ہونی چاہیں۔ یہ ہر لحاظ سے motorable ہو ں۔ اس پر چلنے والی گاڑیاں چھوٹی بڑی اور ہر قسم mechnically فٹ ہونی چاہیں۔ اور ان گاڑیوں کو چلانے والے ڈرائیور ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک ہونے چاہیں۔ رفتار کی پابندی لازم بنائی جائے۔ ان سب چیزوں کیلئے ایک جامع منصوبہ بنایا جائے۔ اسکی implementation یقینا بنائی جائے اور اسکی ہمہ وقت مانیٹرنگ کا خاطرخواہ انتظام کیا جائے۔