وارث میر کا ”فلسفہ چاپلوسی“ اور میری یادداشتیں

ابھی دو دن پہلے مرحوم وارث میر کی 30ویں برسی گزری ہے۔ اس سے ایک ہفتہ قبل ان کے صاحبزادے عامر میر نے اپنی مرتب کردہ ان کی نئی کتاب ”فلسفہ¿ خوشامد“ مجھے بھجوائی تو اس کتاب کا ٹائٹل دیکھ کر ضیاءکی جرنیلی آمریت سے وابستہ میری اپنی کئی یادیں بھی تازہ ہوگئیں۔ وارث میر بلاشبہ دبنگ دانشور اور بے لاگ کالم نگار تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے استاد اور پھر سربراہ رہے مگر اپنی اس سرکاری حیثیت کے باوجود نوائے وقت اور پھر جنگ میں اپنی زندگی کے آخری سانس تک اپنے قلم کے ذریعے ضیاءآمریت کے مقابل کھڑے نظر آتے رہے۔ میں 1981ءمیں نوائے وقت سے وابستہ ہوا تو وارث میر اس ادارے کے چوٹی کے قلمکاروں میں شمار ہوتے تھے۔ میرا ان سے نیاز مندی کا سلسلہ بھی اس وقت سے ہی شروع ہوا۔ وہ آفس آتے تو ان سے ملاقات بھی ہو جاتی اور پھر اکثر نوائے وقت کے آفس کے باہر چیئرنگ کراس کے بس سٹاپ پر ان سے ملاقات ہونے لگی، جہاں وہ نوائے وقت کے آفس سے نکل کروحدت روڈ کی جانب بس یا ویگن کے انتظار میں کھڑے نظر آتے۔ میں حیران ہوتا کہ یہ پنجاب یونیورسٹی کے ایک معتبر ادارے کے سربراہ ہیں مگر بس سٹاپوں پر دھکے کھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ درحقیقت یہی ان کے پروفیشنل اور ایماندار ہونے کی دلیل تھی۔ وہ چاہتے تو اپنے قلم کا رُخ حکمرانوں کی مدح سرائی کی جانب متعین کرکے ان سے بے شمار مراعات لے سکتے تھے مگر انہوں نے ایک استاد، مبلغ اور قلمکار کی حیثیت سے اپنے اجلے دامن پر کبھی کوئی داغ نہ لگنے دیا۔ ان کاشمار بھٹو کے رطب اللسانوں میں بھی ہرگز نہیں ہوتا تھا جبکہ ضیاءآمریت کو انہوں نے اپنے مافی الضمیر کے مطابق چیلنج کرنے کا راستہ اختیار کیا اور حکومتی انتظامی عتاب برداشت کرتے وہ کلمہ¿ حق ادا کرنے سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔
اس وقت بھی ضیاءآمریت کے رطب اللسان قلمکاروں، صحافیوں، کالم نگاروں کی ایک پوری کھیپ ان کی کاسہ لیسی اور اس کے صدقے دنیاوی آسائشیں اور مراعات سمیٹنے میں مصروف تھی۔ اخبارات میں پری سنسرشپ اتنی سخت گیر تھی کہ میجر رینک کا ایک فوجی افسر ہر اخبار کے نیوز روم میں آنے والی خبریں اور ادارتی صفحات پرجانے والے مضامین کی مانیٹرنگ کیا کرتا تھا۔ جس خبر، کالم یا مضمون میں ضیاءکی مخالفت کا شائبہ بھی گزر جاتا، اسے یک قلم چاک کردیا جاتا۔ اس طرح کئی اخبارات کے صفحات سنسر کی نذر ہوکر اکثرخالی پرنٹ ہوا کرتے تھے۔ 1977ءمیں مَیں پی این اے کی ایک جماعت تحریک استقلال کے زیر اہتمام اپنی اشاعت نو کا آغاز کرنے والے روزنامہ ”آزاد“ کے ساتھ بطور سٹاف رپورٹر وابستہ ہوا اور کالم نگاری کا آغاز بھی اسی اخبار سے کیا۔ عباس اطہر مرحوم اس اخبار کے ایڈیٹر تھے اور معروف پنجابی شاعر مسعود منور بھی اسی اخبار کے ساتھ وابستہ تھے۔ اخبار کی پالیسی کے مطابق ضیاءآمریت ہمارے ہدف پر تھی اور بھٹو کی گزری سول آمریت پر پھبتیاں کسنا بھی اخبار کی پالیسی میں شامل تھا، جس کے لئے این سی اے کے استاد اور معروف کارٹونسٹ خالد سعید بٹ کی بطور خاص خدمات حاصل کی گئیں۔ ہائی کورٹ میں زیر سماعت بھٹو کیس کی کوریج میری ذمہ داری تھی جس کی تقریباً روزانہ لیڈ سٹوری بنتی اور اخبار کا آخری صفحہ اس خبر کے بقیہ سے ہی بھرا ہوتا۔ خالد سعید بٹ بھی اسی کیس کے حوالے سے کارٹون بناتے جبکہ اخبار کا اداریہ اور اکثر کالم بھی اسی کیس کا احاطہ کیا کرتے تھے چنانچہ مجھے اپنی کالم نگاری کے آغاز ہی میں اپنے ضمیر کے مطابق ضیاءآمریت کی نکاتی کا بھرپور موقع ملنا شروع ہوگیا۔ اسی طرح بھٹو کی سول آمریت بھی میرے ہدف پر رہی جس کا میں زمانہ¿ طالب علمی سے ہی ناقد تھا اور اپنی ایک نظم ”چاہے دیس بھی ہو کنگال، بھٹو جئے ہزاروں سال“ پر قومی شاعر حفیظ جالندھری سے داد بھی سمیٹ چکا تھا۔
1977ءکے اختتام تک تو ”آزاد“ بھٹو اور ضیاءآمریت کی مخالفت کو ساتھ ساتھ چلا کر آگے بڑھتا رہا مگر جب صرف ضیاءآمریت اس اخبار کا ہدف بنی تو اخبار کی یہ آزادی ضیاءآمریت سے برداشت نہ ہوپائی۔ شومئی قسمت اس وقت بھٹو مرحوم کی جیل سے موصول ہونے والی ایک تحریر ”اگر مجھے قتل کیا گیا“ عباس اطہر کے ہتھے چڑھی اور ان سے اس تحریر کو اپنے دوست مظفر الحسن کے پریس سے چھپوا کر تقسیم کرنے کا جرم سرزد ہوگیا۔ چنانچہ وہ دھر لئے گئے اور جیل سے روزانہ فوجی عدالت میں ان کی پیشی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اخبار کے اشتہارات پہلے ہی بند ہوچکے تھے، کرنل مظفر اور پھر محمد سعید اظہر کی ادارت میں اخبار ”پبّاں بھار“ چلنے لگا اور پھر آصف فصیح الدین وردگ کی منیجنگ ایڈیٹری میں یہ اخبار ضیاءآمریت کے جھٹکے کھاتا اپنے اصل مالک کے پاس ڈمی بن کر واپس چلا گیا۔ بیکاری کا عرصہ شروع ہوا تو اس دوران ریڈیو پاکستان پر پروڈیوسر کی آسامی نکلی جس کے لئے میں نے بھی اپلائی کردیا مگر مقررہ دن کمرئہ امتحان کے باہر کھڑے سکیورٹی کے آدمی نے میرا نام پوچھتے ہی مجھے دروازے کے باہر روک لیا۔ اس کی باڈی لینگوئج سے محسوس ہوا جیسے وہ بے تابی کے ساتھ میرا ہی انتظار کررہا تھا۔ کرختگی سے بولا: ”آپ اندر نہیں جاسکتے“۔ میں نے وجہ پوچھی تو مزید کرختگی سے بولا: ”ہمیں اوپر سے حکم ہے کہ آپ کو امتحان میں نہیں بیٹھنے دینا“۔ میں امتحان میں بیٹھے بغیر واپس چلا آیا۔ بعد میں میری پوچھ تاچھ پر عقدہ کھلا کہ ”آزاد“ میں ضیاءآمریت کے خلاف لکھے میرے کالم میری سرکاری نوکری کی راہ میں رکاوٹ بنے ہیں جس کے لئے درخواست فارم پر درج میرا نام ہی کافی تھا۔ اس طرح مجھے 1984ءمیں بھی ضیاءآمریت کے جبری ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جب میں لاہور پریس کلب کا سیکرٹری تھا اور میں نے ”تجزیہ“ پروگرام کے تحت ضیاءآمریت کے مخالف ایم آر ڈی کے قائدین کو پریس کلب کے پلیٹ فارم پر مدعو کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا تھا، اس وقت لاہور ہائیکورٹ بار اور لاہور پریس کلب کے دو ہی ایسے پلیٹ فارم تھے جہاں پر حکومت مخالفین کو عوام تک اپنا مو¿قف پہنچانے کا موقع مل رہا تھا۔ میں نے ایک پروگرام میں ہائیکورٹ بار کے اس وقت کے صدر سید افضل حیدر کو مدعو کیا تو ایک خفیہ والا پلندے کی شکل میں موجود ایک فائل اٹھائے میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ پریس کلب میں حکومتی مخالفین کو مدعو کرنا بند کردیںورنہ اس فائل میں آپ کے خلاف اتنا مواد موجود ہے کہ آپ کو آزادی¿ صحافت کا مفہوم سمجھ آجائے گا۔ میں نے اس دھمکی کو قطعاً درخوراعتناءنہ سمجھا اور تجزیہ پروگرام جاری رکھا۔ اگرچہ خفیہ والے تواتر کے ساتھ مجھے ڈراتے دھمکاتے رہے۔
اس حوالے سے میں بخوبی سمجھ سکتا ہوں کہ مرحوم وارث میر کو ضیاءآمریت کے خلاف سرکاری ملازم کی حیثیت سے لکھنے کے باعث کس ذہنی کرب و اذیت سے گزرنا پڑا ہوگا۔ ان کے صاحبزادوں حامد میر اور عامر میر نے اپنے والد مرحوم کے اس کرب کا تذکرہ کیا ہے جبکہ کتاب میں موجود وارث میر کے نوائے وقت اور جنگ میں شائع شدہ کالموں میں بھی ضیاءآمریت کے سامنے کلمہ¿ حق کہنے والی ان کی ”گستاخیوں“ کی جھلکیاں بکھری پڑی ہیں۔ اپنا آخری کالم جو ان کی وفات کے اگلے روز شائع ہوا، انہوں نے اپنے بیٹے عامر میر کو ڈکٹیٹ کرایا تھا جو یقینا عامر میر کے لئے ایک اعزاز بن چکا ہے۔ عامر میر نے اپنے والد مرحوم کے نوائے وقت سے جنگ میں جانے کا جو پس منظر بتایا ہے، میرا یقین ہے کہ وہ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ میرا یہ ذاتی مشاہدہ ہے کہ مرحوم مجیدنظامی کسی بھی مضمون یا کالم کو اشاعت سے بمشکل ہی روکا کرتے تھے۔ جب مجھے انہوں نے شعبہ ادارت کی ذمہ داری تفویض کی تو بطور خاص یہ ہدایت کی کہ کسی کالم یا مضمون کو اشاعت سے روکنے سے ہرممکن گریز کریں، کوئی کالم ادارے کی پالیسی کے منافی ہو تو اسے مناسب ایڈٹ کرکے اشاعت کے قابل بنا لیا جائے مگر کسی کا کالم روکا جائے گا تو اس سے لکھنے والے کی دل آزاری ہوگی۔ میں نے آج تک ان کی یہ بات پلے باندھی ہوئی ہے۔ خود میرے دو کالم ایسے ہیں جن کی اشاعت کے ہفتے دو ہفتے بعد مجید نظامی صاحب نے کسی اور موضوع پر بات چیت کے دوران مجھے بتایا کہ ان کالموں کی اشاعت کے بعد آپ کا کالم بند کرانے کے لئے مجھ پر وفاقی حکومت کے مخصوص حلقے کی جانب سے بہت دباﺅ آیا تھا مگر میں نے انہیں واضح کردیا کہ آپ مجھ سے ایسی کوئی توقع نہ رکھیں۔ پھر انہوں نے مجھے معنی خیز لہجے کے ساتھ مشورہ دیا کہ آپ تھوڑا سا ”ہتھ ہولا“ رکھا کریں۔ ان کا لہجہ ایسا تھا جیسے وہ میرے ایسے ہی لکھتے رہنے کی حوصلہ افزائی کررہے ہوں۔ اس لئے میرے یہ گمان میں بھی نہیں آسکتا کہ مجید نظامی صاحب نے وارث میر کا کوئی کالم اشاعت سے روکا ہوگا۔ وارث میر کے نوائے وقت کو خیرباد کہنے کا جو بھی پس منظر ہو، میں اس بات کا بہرصورت معترف ہوں کہ وہ مزاحمتی قلمکار تھے جو سلگتے ایشوز پر قوم کو گائیڈ لائن فراہم کرنے کی حتیٰ الوسع کوشش کرتے رہے اور اسی جہد مسلسل میں انہوں نے محض 47 سال کی عمر میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا۔
عامر میر کی مرتب کردہ ان کی کتاب ”فلسفہ¿ چاپلوسی“ موضوع کے اعتبار سے ہمارے آج کے حالات پر بھی منطبق ہوتی ہے کیونکہ آج پانامہ کیس کے حوالے سے ہمارے کئی معتبر کالم نگار فلسفہ¿ چاپلوسی کے مکمل اسیر ہوچکے ہیں۔ ہمارے دوست عرفان صدیقی نے تو کالم نگاری چھوڑ کر اپنا بھرم ٹوٹنے نہیں دیا مگر ہمارے قلم قبیلے میں آج فلسفہ¿ چاپلوسی ڈنکے کی چوٹ پر اپناآپ منوا رہا ہے۔ سو اس فلسفے کو اجاگر کرنے والے مرحوم وارث میر بھی آج زیادہ شدت سے یاد آرہے ہیں۔ عامر میر بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے والد مرحوم کے مخصوص موضوعات پر مبنی کالموں کو کتاب کی شکل میں مرتب کرکے شائع کرانے کے صحیح وقت کا انتخاب کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن