"The Party is Not Over"

گزشتہ ہفتہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے سلسلے میں بڑا اہم رہا۔ مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز، چیئرمین نیب اور اسحاق ڈارسے پوچھ گچھ ہوئی۔ جے آئی ٹی کا یہ آخری ہفتہ ہونے کی وجہ سے بھی اہم تھاکیونکہ سپریم کورٹ کی ڈیڈلائن کے مطابق10جولائی کو رپورٹ جمع کرادی گئی ہے اس طرح یہ قصہ تو ایک طرف ہوا اور اب رپورٹ پر فیصلہ ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) نے قطری شہزادے کا بیان لئے بغیر رپورٹ کو ماننے سے انکارکردیا ہے اور چاروں وفاقی وزیروں نے کہا کہ قطری شہزادے کے خط کی تصدیق رپورٹ کا حصہ نہ بنانا ناانصافی ہوگی جبکہ دوسری طرف جے آئی ٹی نے شیخ حمد بن جاسم کو ایک اور خط لکھاکہ جے آئی ٹی خطوط سے آگے بڑھ کر تحقیقات کرنا چاہتی ہے اس لئے بذریعہ فیکس یا ای میل کے ذریعے اپنا جواب جمع کروائیں سپریم کورٹ اب رپورٹ کا جائزہ لے گی اورآئین و قانون کے مطابق اور اپنے فیصلہ کے مطابق حکم جاری کریگی۔
میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف بھی جے آئی ٹی میں پیش ہوئے تھے جس میں انہوں نے سوال یہ اٹھایا تھاکہ ان پرکرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی پیشی کے بعد مسلم لیگ (ن) نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ جے آئی ٹی کوISI کیوںکنٹرول کر رہی ہے جب یہ خبریں آئیں تو پیارے دوستوں نے کہا کہThe Party is over اوراس حوالے سے ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیربھٹوکے ادوارکا بھی حوالہ دیا گیا۔ بظاہر تو بات درست نظرآتی ہے کہ جب ملک میںآئینی طور پر منتخب اور مکمل با اختیار حکمران یہ کہنے لگ جائیں کہ وزیراعظم ہاﺅس کے ٹیلیفون ٹیپ ہو رہے ہیں تو بات ختم ہوتی ہوئی نظرآتی ہے لیکن جے آئی ٹی کے سامنے5 جولائی کو جب مریم نواز پیش ہوئیںاور بعد ازاں میڈیا کے سامنے اپنا موقف پیش کیا تو مجھے لگا کہ ابھی تو پارٹی ختم نہیں ہوئی بلکہ مریم نواز نے نئی اننگز شروع کی ہے ۔گزشتہ سال مریم نوازکی وائٹ ہاﺅس میں پذیرائی پر میں نے لکھا تھاکہ مریم نوازکو لانچ کردیا گیا ہے۔ چند ہفتے قبل میں نے لکھا تھاکہ آنے والے الیکشن میں”مریم نواز اور عمران خان“ کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ بحرحال مریم نوازکی جے آئی ٹی کی پیشی کے بعد میڈیا سے بات چیت نے میر ی بات کی تصدیق کردی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن)کی قیادت کس کے پاس ہوگی جس جارحانہ اندازمیں مریم نوازنے گفتگوکی اس سے مستقبل کی سیاست کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ مریم نواز نے اپنے آپ کو سمجھوتہ کرنے والی لیڈر بننے کی بجائے جمہوریت کیلئے لڑنے والی راہنماکے طور پر پیش کیا۔ مریم نوازکہتی ہیں کہ جے آئی ٹی والے بتائیں کہ ہم پرالزام کیا ہے۔ ایک فیملی کاکتنا احتساب کروگے۔ اگر نوازشریف کے خلاف سازش ہوئی وہ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ واپس آئیگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس کے خلاف سازش سے باز نہ آئے تو وہ چوتھی اور پانچویں بار بھی وزیراعظم بنے گا۔ روک سکو تو روک لو، نوازشریف کو روک لو ورنہ پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا، بجلی کے منصوبے مکمل ہونگے، لوڈشیڈنگ کاخاتمہ ہوگا، سڑکوں کے جال بچھ جائینگے، سی پیک مکمل ہوگا۔ نوازشریف آئین کی پاسداری کیلئے کھڑے ہیں۔ پیش ہوکر وہ قرض اتار دیا جو واجب بھی نہ تھا۔ ہمارا پانچواں احتساب چل رہا ہے اپنی کہانی عوام کے پاس لے کر جائینگے۔ ہم بھی نتھیا گلی میں چھپ سکتے تھے عوام کی طاقت نوازشریف کے ساتھ ہے۔ پانامہ میں 500 خاندان شامل ہیں صرف نوازشریف کے خلاف جے آئی ٹی بنی ہے۔ نوازشریف نے شیردل انسان کی طرح احتساب کا سامنا کیا ہے ہمارے ذمہ غریب عوام کا کوئی پیسہ نہیں ہے۔ سیاست میں حکومت کرنا ہی لیڈر شپ کی نشانی نہیں ہوتی۔ اصل بات یہ ہے کہ ملک وقوم کیلئے کون سوچتا ہے اور آئین کی پاسداری کون کرتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹوکی حکومتیں تو ختم ہوگئیں لیکن انہی کے زبردست مخالف بھی انکے حامی بن گئے ۔انکی شہادت نے ان کو امرکردیا۔ قربانی کے بغیرکوئی لیڈر بنتا ہے اور نہ عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتا ہے۔ وزیراعظم تو محمد خان جونیجو، ظفراللہ جمالی، شوکت عزیز، غلام مصطفےٰ جتوئی، معراج خالد، چوہدری شجاعت حسین، یوسف رضاگیلانی، راجہ پرویزاشرف اوردیگر راہنما رہے لیکن کس کویہ لیڈر یاد ہیں۔ بلاشبہ فوجی آمر بھی یاد رہتے ہیں لیکن لوگ ان کوکیسے یادکرتے ہیں یہ فیصلہ تو قوم نے کرنا ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ قربانی دینے والا، لڑنے والا، جمہوریت کیلئےstand لینے والا، جیل جانے والا، شہید ہونے والا، آئین اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والا ضرور یاد رکھا جاتا ہے اس لئے ابھی تو مریم نوازکی لڑائی اورنئی جنگ شروع ہوئی ہے ۔ دنیا بھرکے جمہوری ملکوںمیںجمہوریت پیاراورمنت سے نہیں آئی اورنہ ہی کمزوریاں دکھا کر جمہوریت مضبوط ہوئی ہے اس کیلئے سخت جدوجہدکرنا پڑتی ہے۔ مریم نوازکے اعلان سے لگتا ہے کہ وہ لڑنا چاہتی ہیں۔ اب سیاست نیارُخ اختیار کریگی چاہے نوازشریف کے خلاف فیصلہ آتا ہے یا حق میں یارلوگوں نے مریم نواز اور بے نظیر بھٹوکا مقابلہ شروع کردیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے کارکن مریم کو بے نظیر جیسا لیڈر کہنا شروع کر دیتے ہیں تو پیپلزپارٹی کے لیڈر نہ صرف تنقیدکرتے ہیں بلکہ 5 جولائی1977ءیاد دلاتے ہیں۔ اس دن جنرل ضیاءالحق نے بھٹوکا تختہ الٹا تھا اوراس دن مریم نواز جے آئی ٹی میں پیش ہوئی جس دن کو مریم کی لانچنگ قرار دیا جا رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو نے سیاست میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ باپ اور دو بھائیوںکی شہادت جیل اورجلاوطنی،1977سے لیکر2007 تک جدوجہدکی ایک تاریخ اور پھر شہید ہوکر امر ہوگئیں۔ مریم نوازکی سیاست وزیراعظم ہاﺅس سے شروع ہوئیں۔ انہوں نے چار سالہ دورمیں حقیقی معنوں میں حکومت کی ہے اور میڈیا سیل چلایا ہے۔ پہلی مرتبہ کسی حکومت نے صحیح معنوںمیں میڈیا کیلئے جدید طریقہ اختیارکیا ہے۔ ماضی میں تو حکومتیں پرواہ نہیں کرتی تھیں لیکن مریم نوازکی قیادت میں بہترین نظام چلایا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے لیکن ”عشق کے امتحان اور بھی ہیں“۔ مریم نوازکا امتحان تو اب شروع ہوا ہے انہوں نے تو الیکشن مہم چلانی ہے۔اگلی حکومت کرتی ہیں یا اپوزیشن، ان کا وقت شروع ہوگیا ہے اور صحیح معنوں میں ابھی پارٹی شروع ہوئی ہے دیکھنا تو یہ ہوگا کہ نوازشریف حکومت ختم ہوتی ہے تو پھرکون وزیراعظم ہوتا ہے اورکتنے لوگ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں۔ یار لوگ کہتے ہیں کہ کنگز پارٹی بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ عمران خان کو اقتدار نہیں ملنے والا۔ کنگز پارٹی میں سب لوگ شامل ہو جائینگے اور پھر الیکشن بھی کنگزپارٹی اورعمران خان کے درمیان ہوگا۔ معروف صحافی اوراینکرسہیل وڑائچ ایک سال سے کہہ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہیں نئی لیڈرشپ اور نئی پارٹی کی ضرورت ہے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ نئی بننے والی پارٹی کنگزپارٹی ہوتی ہے یا عمران خان کی اپوزیشن۔ بحرحال سیاست دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح دسمبر2017 آ جائے تاکہ لوڈشیڈنگ مکمل ختم ہو جائے۔ سی پیک کے مزید منصوبے اور سڑکیںمکمل ہوسکیں۔ وفاقی حکومت نے اپنے چارسالہ دور میں پہلی مرتبہ ایک ایسے شخص کو وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی لگا دیا ہے جو انتہائی اہل، متحرک اوردیانتدارہے یوسف نسیم کھوکھرنے اپنی پوسٹنگ کیلئے کبھی سفارش نہیں کرائی ماضی کی ہر حکومت نے اپنی خواہش پران سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔کھوکھرصاحب کے ذمے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا ٹارگٹ ہے اور وہ اس کام کیلئے دن رات ایک کر رہے ہیں اس لئے دیکھتے ہیں کہ میاں نوازشریف دسمبر2017ءتک حکومت چلانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ اگر کامیاب نہ ہوئے تو پھر حکومتی تماشہ شروع ہو جائیگا نئی سیاست اور نئی وفاداریاںکا دورشروع ہوگا اس لئے"The Party is not over" کیونکہ کھیل تواب شروع ہواہے۔

ای پیپر دی نیشن