مفاد عامہ کیلئے چیف جسٹس کے نوٹسز قابل ستائش ہیں: صدر سپریم کورٹ بار

اسلام آباد (صلاح الدین خان )سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے صدر پیر سید کلیم خورشید نے کہا ہے کہ جب جمہوری حکومت ہی عوام کے حقوق غصب کرے تو لوگ کہاں جائیں؟ ایسے میں مفاد عامہ کے لئے عدلیہ کو متحرک ہونے کا اختیار آئین پاکستان دیتا ہے، حکومت کی گڈ گورننس میں ناکامی کے بعد، چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ازخود نوٹسز قابل ستائش اور امید انصاف کی چمکتی کرنیں ہیں، چیف جسٹس کے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، بحالی سنٹرز کے دورے اچھے کام میں ان کا ساتھ دیا جانا چاہئے، ان کا مقصد اداروں کی مضبوطی اور بہتری ہے اسے سیاست سے تشبیہ نہ دی جائے، پیر کلیم نے کہا کہ وہ ملک کی تعمیروترقی، جمہوریت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں، کالاباغ سمیت دیگر ڈیمز بننا چاہئیں، وہ لوگ جو انڈیا کے ڈیمز بننے پر خاموش جبکہ پاکستان کے ڈیمز بننے پر تنقید کرتے ہیں وہ وائٹ کالر کرائم کے مرتکب ہوتے ہیں، سی پیک پر شدید تحفظات ہیں، چین، امریکی نیو ورلڈ آرڈر کو کائونٹر بلاسٹ کرنے کے لیے سی پیک لایا لیکن ہماری حکومت چین سے اس منصوبے کی اچھی شرائط طے کرنے میں ناکام رہی، معاہدے کے مطابق 40سال تک اس کا 92 فیصد فائدہ چین کو ہے جبکہ پاکستان کو صرف چونگی ٹیکس8فیصد ملے گا، صرف چونگی کے حصول سے ملک ترقی نہیں کرسکتا، چونگی ٹیکس پر انحصار کرنے والی قومیں مشکلات کا شکار ہوکر زندہ تو رہتی ہیں مگر باوقار مقام حاصل نہیں کرسکتیں۔ سی پیک پاکستان کا منصوبہ نہیں بلکہ چین کا برین چائلڈ ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوائے وقت کو دیئے گئے انٹرویو میں کیا۔ بار صدر پیر کلیم نے کہا کہ عدلیہ بحالی تحریک ایک چیف جسٹس کی بحالی کے لئے نہیں بلکہ ملک میں آئین وقانون کی بالادستی قائم کرنے کے لئے تھی، وکلاء عام شہریوں نے اس میں حصہ لیا، ملک میں ہر اس شخص کو کوئی خطرہ نہیں جس کا ضمیر اور کردار صاف ہے، پاکستان اسی دن ہار گیا تھا جس دن قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کو انتخابات میں ہرا دیا گیا، اس ہار کی صورت میں ’’سقوط ڈھاکہ سانحہ ہوا‘‘ ملک کا ایک حصہ ہم سے الگ ہوگیا۔ اگر پاکستان ’’گرے‘‘ سے بلیک لسٹ میں شامل ہو گیا تو اس کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...