”دوبارہ لوٹ کے پہلی زندگی آئے“جدےد لہجہ کے معروف شاعر عارف شفیق سے گفتگو

خالد یزدانی
اسی کی دہائی میں اپنے منفرد کلام کی بدولت جن نوجوان شعرا نے شہرت حاصل کی ان میں کراچی کے معروف شاعر عارف شفیق کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ جتنے اچھے شاعر ہیں اتنے ہی اچھے صحافی بھی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وہ لاہور آئے تھے تو ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا ،وہیں ان سے ان کے فن و شخصیت پر ایک مختصر نشست میں جو گفتگو ہوئی وہ نذر قارئین ہے۔
٭....شعر و شاعری کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
٭....میرا ادبی گھرانے سے تعلق ہے میرے والد شفیق بریلوی برصغیر پاک وہند کے معروف ادیب تھے، اسی طرح میری والدہ مسرت جہاں نوری بھی کئی کتابوں کی مصنفہ تھیں اور مجھے بھی بچپن ہی سے اچھی شاعری پڑھنے کا شوق تھا۔ میں نے پہلی غزل بارہ سال کی عمر میں کہی اس کا ایک شعر یاد ہے۔
سوچتا ہوں کہ گھر جلا ڈلوں
گھپ اندھیرا ہے کچھ اجالا ہو
٭....شاعری کی اصلاح کس سے لی؟
٭....میرے استاد سراج الدین ظفر تھے۔ ان کے بارے میں یہ واضح کر دوں کہ میرے گھر پر ماہر القادری ، جوش ملیح آبادی، حفیظ جالندھری بھی آیا کرتے تھے اور میں ان کے کلام کو سنتا تھا۔ ماہر القادری صاحب ایک دن مشاعرے میں مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ مشاعرے میں تمام بزرگ شعراءتھے میں واحد نوجوان تھا۔ میں نے غزل سنائی جو بے حد پسند کی گئی ۔ اگلے روز ماہر القادری نے میرے استاد کو چھیڑتے ہوئے کہا تمہارے شاگرد نے مشاعرہ لوٹ لیا ہے۔ میرے استاد نے مجھے کہا عارف مجھے غزل دکھاﺅ۔ میں نے غزل ان کو دے دی، انہوں نے غزل پڑھی اور بولے وہاں پر سب جاہل لوگ تھے۔ یہ نوجوانی میں تم کیا بزرگوں والی غزل کہہ رہے ہو۔ آئندہ مشاعروں میں نہ جانا شاعری میں خود کو لکھنے کی کوشش کرو لہٰذا اس دن کے بعد کوئی روایتی الفاظ مثلاً آشیانہ، گلشن وغیرہ اپنے اشعار میں نہیں لکھا لہٰذا مجھ پر اور میری شاعری پر ہر طرف سے تنقید ہونے لگی کہ یہ شاعری کو بازاری بنا رہا ہے ۔ میرے عوامی لفظوں پر سینئر شعراءنے اعتراض کرنا شروع کر دیا۔
مےں نے پوچھا ”کیا آپ اس سے دلبرداشتہ ہوگئے؟“
وہ جواب مےںبولے ”وہی بتانے جا رہا ہوں۔ ایسے نازک حالات میں معروف جاسوسی ناول نگار ابن صفی نے میری شاعری پر تفصیلی مضمون لکھا ،جس کا عنوان تھا، عوامی غزل کی بنیاد میں پہلا پتھر رکھنے والا شاعر، جس سے مجھے بڑا حوصلہ ملا اور انہی دنوں بھارت سے کیفی اعظمی پہلی بار پاکستان آئے تو انہوں نے لوگوں سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ عارف شفیق کو سننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بھارت میں ابن صفی کا ان کی شاعری پر مضمون پڑھا ہے۔ اس طرح علی سردار جعفری نے ڈاکٹر احسن فاورقی (جو آج ہم میں موجود نہیں) سے یہی کہا کہ انہوں نے ابن صفی کا مضمون پڑھا ہے اور عارف شفیق کی شاعری سننا چاہتا ہوں لہٰذا جب میں نے ان کے سا منے اپنا کلام پڑھا تو انہوں نے مخصوص انداز میں داد دی اور کیفی اعظمی نے کہا کہ میںپاکستان سے عارف شفیق کی شاعری لے کر بھارت جا رہا ہوں۔
”آپ کے جدا گانہ انداز بیان کی وجہ کیا دانستہ تھی یا کوئی تحریک ؟“سوال کے جواب مےں عارف شفےق نے کہا
”کب میں نے شاعری کا آغاز کیا تھا تو اس وقت شاعری میں گل و بلبل کے قصے استاد قمر جلالوی کے انداز میں لکھے جا رہے تھے جبکہ مجھے منیر نیازی، شکیب جلالی اور ظفر اقبال کی شاعری متاثر کرتی تھی لیکن میں نے اپنے ان پسند یدہ شاعروں سے بھی الگ لہجہ بنانے کی اس لئے کوشش کی کہ میں چاہتا تھا کہ میرے شناختی کارڈ پر میری تصویر ہو کسی دوسرے کی نہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ میری پہچان کسی حد تک میرے اپنے لہجہ سے ہے۔
سوال ”آج پاکستان اور بھارت میں جو شاعری ہو رہی ہے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
عارف شفےق نے کہا” آج بھارت میں صرف روائتی شاعری ہو رہی ہے، تین چار شاعر قابل ذکر شاعری کر رہے ہیں جن میں عرفان صدیقی جن کا حال ہی میں انتقال ہوا کے علاوہ شہریار گلزار اور ندافاضلی جبکہ بشیر بدر اور سو سو پاکستان میں صرف منیر نیازی ، احمد ندیم قاسمی تھے جبکہ اب ظفر اقبال ، صابر ظفر ، انور شعور کے علاوہ بے شمار شاعر ہیں اس کے علاوہ بہاولپور، ملتان اور دیگر چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی بے پناہ ٹیلنٹ ہے جبکہ بھارت میں دور دور تک ایسا کوئی نوجوان شاعر دکھائی نہیں دیتا۔ “
٭....آپ کی شاعری کے کتنے مجموعے شائع ہو چکے ہیں؟
٭....میرا پہلا شعری مجموعہ 1977ءمیں شائع ہوا اور حال ہیں میں 500غزلوں پر مشتمل ، یقین شائع ہواہے۔ اب تک کل نو مجموعے آچکے اور میں یہ بتادوں کہ میں نے ہر موضوع پرلکھا میری شاعری سے جو لفظ احتجاجی جوڑا جارہا ہے وہ غلط ہے۔ میراور غالب نے اپنے اپنے عہد کو لکھا اور مجھے جو منظر نامہ ملا اسکے تناظر میں ، میں نے اشعار لکھے میں نے جو شاعری کی وہ آج کامنظر نامہ ہے۔
٭....ویسے تو سبھی قابل ذکر اخبار ور سائل میں میری غزلیں شائع ہوئیں لیکن فنون اور آداب عرض میں میرا کلام زیادہ شائع ہوا۔
عارف شفیق کا نمونہ کلام ملا حظہ فرمائیں:
دل کا کشکول ہو گیا خالی
کسی درویش سے ملاجائے
دی ہی دل میں جو میں درود پڑھوں
آسمانوں میں بھی سنا جائے
٭....٭....٭....٭
بند آنکھوں سے دیکھ رہے تھے دنیا کو
گہری نیند جو سوئیں گے توآنکھ کھلے گی
اپنے دکھوں پر ہر دم روتے رہتے ہیں ہم
دکھ پہ کسی کے روئیں گے تو آنکھ کھلے گی
٭....٭....٭....٭
سارا عالم سجدے میں ہے وقت کی سانسیں تھم سی گئیں
فرش سے لے کر عرش تلک بس عشق ہی عشق کا جلوہ ہے
٭....٭....٭....٭
دوبارہ لوٹ کے پہلی سی زندگی آئے
کوئی قطب کوئی سالک کوئی ولی آئے
٭....٭....٭....٭
اک پل بھی جو اداس تجھے دیکھتا ہوں میں
یہ چاند یہ چراغ بجھے دیکھتا ہوں میں
کھو کر وہ مجھ سے خوش ہے میں کیسے یقیں کروں
اس کی ہنسی میں درد چھپے دیکھتا ہوں میں
اک دشت میر ے پاﺅں کے چھالوں میں قید ہے
اپنے جنوں کو دور کھڑے دیکھتا ہوں میں
۔۔۔۔

ای پیپر دی نیشن