غیر سیاسی قوتوں کا کردار الیکشن مشکوک بنا رہا ہے : نواز شریف

لندن (نمائندہ خصوصی) ’’شاہراہ دستور اسلام آباد پر عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں کے دوران مجھے ایک رات فون آیا۔ کوئی صاحب فوری طور پر ملنا چاہتے تھے میں نے گریز کیا لیکن انہوں نے کہا کہ معاملہ بہت اہم ہے اور مجھے ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے ایک فوری پیغام پہنچانا ہے۔ رات کے وقت وہ آئے اور مجھے لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کا پیغام دیا کہ حالات خراب ہو چکے ہیں اس لئے میں فوری طور پر استعفیٰ دے دوں۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو طویل رخصت پر چلا جاؤں۔ میں نے ایک لمحہ سوچے بغیر کہہ دیا کہ بتا دو جاکر میں نہ استعفیٰ دوں گا نہ چھٹی پر جاؤں گا۔ اسحق ڈار بھی اس واقعہ کے گواہ ہیں۔ مجھے بے حد افسوس ہوا کہ آئی ایس آئی وزیراعظم کے ماتحت ادارہ ہے جس کا سربراہ اس طرح مجھے مستعفی ہونے کے لئے کہہ رہا ہے۔‘‘ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد کسی بھی میڈیا گروپ کو پہلے انٹرویو کے دوران نوائے وقت؍ نیشن سے خصوصی بات چیت کے دوران ایک سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کا ایک خاص مقام ہے۔ اکثر لوگوں کو خیال تھا کہ کم از کم مریم کو کوئی سزا نہیں ہو گی لیکن اسے بھی کسی جرم کے بغیر سات سال قید بامشقت سنا دی گئی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتقام لینے والوں کے دلوں میں کیسی آگ بھڑک رہی ہے لیکن اللہ کے فضل سے مریم واقعی میری کمزوری نہیں بنی، وہ میری طاقت ہے۔ وہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے مشن میں پوری جرات کے ساتھ میرے ساتھ کھڑی ہے۔ مجھے اپنی بیٹی پر ناز ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ آزمائش کی اس گھڑی میں مریم کو کیا نصیحت کریں گے تو نوازشریف نے کہا کہ مریم موجودہ سیاسی تقاضوں کو بھی سمجھتی ہے اور میرے مشن کی اہمیت سے بھی آگاہ ہے، میں نے اسے کہا ہے کہ ہم عوام کی حاکمیت اور ان کے ووٹ کی عزت کیلئے میدان میں نکلے ہیں۔ اس لئے ہمیں ہر طرح کی سختیوں اور مشکلات کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا وطن واپس جاتے ہوئے آپ کو اندازہ ہے کہ شاید آپ اگلے کئی ماہ یا کئی سالوں تک اپنی بیگم کو نہ دیکھ سکیں تو انہوں نے افسردہ لہجے میں کہا کہ مجھے شاید آخری سانس تک یہ دکھ رہے گا کہ میں کلثوم سے کوئی بات نہ کر سکا اور وہ بھی آنکھیں کھول کر نہ دیکھ سکیں کہ ہم ان کے سرہانے کھڑے ہیں۔ اندھے انتقامی رویوں نے مجھے یہ اجازت نہ دی کہ میں اور مریم اس وقت یہاں آ سکتے جب کلثوم ہوش و حواس میں تھیں۔ آج وہ وینٹی لیٹر پر ہیں۔ میں انہیں چھوڑ کر قید کاٹنے پاکستان جا رہا ہوں۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اب ان سے میری ملاقات کب ہو گی۔ جب آپ وزیراعظم تھے تو کس نے آپ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مطالبہ میرے ماتحت ادارے آئی ایس آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی طرف سے آیا تھا جسے میں نے فوری طور پر رد کر دیا تھا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ چودھری نثار علی خان کہتے ہیں کہ انہوں نے آپ کو موجودہ صورتحال سے بچانے کی بہت کوشش کی۔ آخر انہوں نے آپ کو ایسا کیا مشورہ دیا تھا۔ نواز شریف نے کہا کہ میں چودھری صاحب کی ان باتوں کا کوئی جواب نہیں دینا چاہتا۔ وہ اپنی تسکین یا انتخابی ضرورت کیلئے یا مستقبل کے سیاسی امکانات کے پیش نظر جو مرضی ہے کہتے رہیں۔ لیکن میں اتنا ضرور کہہ دوں کہ مجھے اپنی موجودہ صورتحال پر کوئی پچھتاوا نہیں، مجھے فخر ہے کہ قدرت نے یہ اعزاز میری قسمت میں لکھا کہ میں اس قوم کے حقوق کیلئے میدان میں نکلوں اور اس کا حق حکمرانی بحال کراؤں۔ میں اللہ کے فضل سے کسی کرپشن یا بدعنوانی کے الزام میں نہیں، ’’ووٹ کی عزت‘‘ کیلئے جیل جا رہا ہوں۔ میں اس صورتحال کے بجائے محض نوکری کیلئے کمپرومائز کے راستے پر چلتا رہتا تو میرا ضمیر مجھے کبھی معاف نہ کرتا۔ وزیراعظم ہاؤس کے بجائے جیل کی کوٹھڑی کی طرف جاتے ہوئے مجھے فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مزاحمت اور انکار کی جرأت عطا کی اور میں نے بزدلی کا راستہ نہیں چنا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے پوچھا گیا کہ اس وقت پاکستان انتخابات کے حوالے سے شدید غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ آپ وطن واپسی اور گرفتاری کے بعد کیسے انتخابی نتائج کی توقع رکھتے ہیں؟ سابق وزیراعظم نے کہا کہ اس بے یقینی کی بڑی وجہ غیر سیاسی قوتوں کا سیاسی کردار ہے۔ یہ لوگ انتخابات کی غیر جانبداری کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں، باہر سے آئے مبصرین اور عالمی میڈیا کو دکھائی دے رہا ہے کہ کس طرح کچھ لوگ صبح و شام مسلم لیگ (ن) کے خلاف سرگرم ہیں۔ وہ کھلے عام کہتے ہیں کہ ہم مرضی کے نتائج حاصل کرلیں گے لیکن آپ میری بات نوٹ کرلیں انہیں اتنی بڑی ناکامی ہونے جارہی ہے کہ یہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ پاکستان کے باشعور اور غیرت مند عوام ایسا فیصلہ دینے جارہے ہیں کہ ان کے ووٹ کی توہین کا سوچنے والے عبرت کا نمونہ بن جائیں گے۔ کوئی مائی کا لعل انتخابی عمل میں دھاندلی نہیں کرسکے گا۔ ایسا کرنے والے آگ سے کھیلیں گے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے الیکشن کمشن سے پری پول رگنگ کی شکایت کی ہے؟۔ نواز شریف نے کہا کہ کیا الیکشن کمشن گونگا بہرا ہے؟ کیا اس کی آنکھیں نہیں؟ کیا اسے کوئی خبر نہیں ہوئی کہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ کیا کمشن نہیں جانتا کہ لوگوں کو کس طرح ڈرا دھمکا کر ایک خاص جماعت کی طرف دھکیلا جارہا ہے؟ کیا نگران حکومت یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہی۔ کیا ذرا ذرا سی بات کا نوٹس لینے والے چیف جسٹس صاحب کو کسی نے نہیں بتایا۔ حالت یہ ہے کہ ثاقب نثار خود راولپنڈی کے ایک حلقہ انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار کو ساتھ لئے دورہ کرتے اور اس امیدوار کے ایک سیاسی منصوبے کے لئے احکامات جاری کرتے رہے۔ کیا وجہ ہے کہ نہ چیف الیکشن کمشنر نے اس کا نوٹس لیا نہ ہی نگران وزیراعظم نے۔ اگر چیف جسٹس مسلم لیگ (ن) کے کسی امیدوار کے ہمراہ اس طرح کا دورہ کرتا تو آپ دیکھتے کہ کیسی قیامت آجاتی۔ میاں صاحب سے پوچھا گیا ’’کیا آپ کو کوئی پچھتاوا ہے کہ آپ نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بروقت کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی‘‘ تو انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ سمجھاتا رہا، ملکی مفاد کی دہائی دیتا رہا، میں نہیںچاہتا تھا کہ کھلے تصادم کی فضا پیدا ہو اور ملکی مفاد کو نقصان پہنچے۔ یہاں تک کہ کرگل کے اقدام نے پاکستان کو ساری دنیا میں تنہا کردیا تھا۔ چین تک نے کہہ دیا تھا کہ اس معاملے میں آپ کی حمایت نہیں کرسکتے۔ میں نے اس وقت بھی مشرف کے خلاف اقدام سے گریز کیا، لیکن میری اس پالیسی کے اچھے اثرات نہیں پڑے۔ جب میں نے زور دے کر کہا کہ دنیا کو اپنی کوششوں کا یقین دلانے کے لئے ہمیں ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے، اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا لیکن میری اس بات کو بھی نیوز لیکس بناکر ایک نیا کھیل شروع کردیا گیا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا فوری طور پر پاکستان جانے کا فیصلہ کرلینے سے بہتر نہ تھا کہ وہ انتخابات کے نتائج کا انتظار کرلیتے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نے کہا کہ اپنی اہلیہ کی شدید بیماری میرے لئے بہت حساس مسئلہ تھی لیکن سزا سنا دیئے جانے کے بعد میرے سامنے کوئی آپشن نہ تھا کہ میں اپنے عوام میں جائوں اور انہیں بتائوں کہ میں جیل کی کال کوٹھڑی سے نہیں ڈرتا۔ میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا معرکہ سینہ تان کر لڑوں گا اور یہ ثابت کروں گا کہ پاکستانی قوم بزدلوں کا نہیں بہادر لوگوں کا ساتھ دیتی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا نیب عدالت کے فیصلے کے بعد مقتدر قوتوں نے آپ کو کسی ڈیل یا این آر او کی پیشکش نہیںکی۔ نواز شریف نے کہا کہ میں اس طرح کے کمپرومائز کا آدمی ہوتا تو میرے خلاف ایسے فیصلے نہ آتے۔ ہاں مجھے پاکستان آنے سے روکنے کی کوششیں ہوئیں جو اب بھی جاری ہیں، میں نے سختی سے ان تمام پیشکشوں کو رد کردیا ہے۔ میں اپنے عوام کے پاس جارہا ہوں جو میرے منتظر ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...