اسلام آباد(سہیل عبدالناصر)عام انتخابات میںفوج کی معاونت کے بارے میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس معمول کا واقعہ ہوتا ہے لیکن منگل کے روز میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس بعض حوالوں سے خاص تھی۔میڈیا کے بعض حصوں، کچھ سیاسی جماعتوں اور سوشل میڈیا پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ فوج ، تحریک انصاف کی حمایت میں انتخابی عمل، ووٹروں اور امیدواروں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ عسکری ترجمان نے اس حوالہ سے چبھتے ہوئے سوالات اور تحفظات کا ٹیلیویژن پر نشر ہونے والی ایک براہ راست پریس کانفرنس میں جواب دینے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ اکثر سوالات کا انہوں نے جواب دیا، البتہ کچھ سے گریز کیا۔ حالیہ دو برسوں میں سول ملٹری تعلقات کے حوالہ سے عمومی طور پر اور بطور خاص سوشل میڈیا پر ، ایک نئی قسم کے علامتی اور مزاحمتی ادب کا اسلوب متعارف ہوا ہے جس میں ’’لڑکی کے بھائی‘‘ ،محکمہ زراعت‘‘، اور خلائی مخلوق‘‘ سمیت نئی علامات بروئے کار لائی جا رہی ہیں ۔ اس سے بھی پہلے جب فوج کا حوالہ دینا ہوتا تھا تو بربنائے احتیاط انہیں ’’ پنڈی والے اور آئی ایس آئی کو’’آب پارہ‘‘ والے کہ کر پکارا جاتا تھا لیکن گزشتہ روز کی پریس کانفرنس نے ان علامتوں کا دور ختم کر دیا اور کھل کر فوج اور آئی ایس آئی کے حوالہ سے سوال کئے گئے جب کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے خود بھی کسی استعارے کی آڑ لینے کے بجائے اپنے جوابات میں فوج اور آئی ایس کے نام لئے بلکہ آئی ایس آئی کے ڈی جی برائے داخلی سلامتی میجر جنرل فیض حمید کا نام بھی زیر بحث آیا جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انٹیلیجنس اداروں کے کام خفیہ ہوتے ہیں اور فیض حمید کام نام لینے والے ان کے اپنے اور ان کے ادارے کی ملکی سلامتی کیلئے ان کی خدمات سے آگاہ نہیں۔سیاسی مباحث میں فوج کے سیاسی اثر کی شکائت کی جاتی ہے لیکن اس پریس کانفرنس میں عسکری ترجمان تو خود شکوے کرتے نظر آئے۔ انہوں نے شکائت کی کی ٹیلیویژن پر شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ہر ایک سب کچھ کہنے کی اجازت ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سب کے جواب میں وہ اگر روزانہ بھی پریس کانفرنس کریں تو اس کی بھی ایک حد ہے۔ نہ تو وہ خود اور نہ فوجی کمانڈر، ان باتوں کا جواب دے سکتے ہیں۔ انہوں نے تحریک انصاف کا نام لئے بغیر ان الزامات کا جواب دیا کہ امیدواروں کو اس پارٹی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ عسکری ترجمان نے سوال کیا کہ کیا ایسا کبھی نہیں ہوا کہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے ہوں؟ کیا ایسا نہیں ہوا کہ ہارنے والی جماعت نے دھاندلی کے الزامات عائد کئے ہوں؟ ان کا ایک اہم دلچسب اور ذو معنی جواب یہ بھی تھا اگر ایک شخص کو اپنی پارٹی سے اختلاف ہوتا تو اس کا دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرنا بھی جمہوریت کا ہی حصہ ہے۔اس پریس کانفرنس کے ذریعہ انہوں نے درج ذیل اہم امور کی بھی وضاحت کی کہ الیکشن کمیشن ہی انتخاب منعقد کروا رہا ہے، فوج صرف امن و سلامتی کیلئے معاونت فراہم کر رہی ہے۔ اس بار ایک لیفٹننٹ جنرل کی زیر کرکردگی جی ایچ کیو میں الیکشن کی معاونت کیلئے شعبہ قائم کیا گیا ہے۔انہوں نے لیفٹننٹ جنرل کا نام تو نہیں بتایا تاہم باور کیا جاتاہے کہ کمانڈر ائر ڈیفنس لیفٹننٹ جنرل حمود الزمان اس شعبہ کی سربراہی کر رہے ہیں۔