اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سید علی ظفر نے کہا ہے کہ حکومت عقائد اور مذہب کی آزادی کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کو چیلنج کرے گی کیونکہ ریاست کسی شخص کو پابند نہیں بنا سکتی کہ اس کا مذہب یا عقیدہ کیا ہونا چاہئے حکومت ملک کے تمام شہریوں کو برابر سمجھتی ہے اور مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر کسی طرح کے امتیازی سلوک کی آئین و قانون کی رو سے کوئی گنجائش نہیں ہے انتہا پسندی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور پاکستان میں اٖفغان جنگ کے بعد اس رجحان میں اضافہ ہوا۔مذہبی آزادیوں کا تحفظ اور تکثیریت کو فروغ دینا ہر ریاست اور حکومت کا بنیادی فریضہ ہے جس کے بغیر حکومت کو صرف جبر کا ایک نظام تصور کیا جائے گا، ہم سیاسی ، سماجی اور ثقافتی اعتبار سے ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔۔آئین اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے‘ قائد اعظم نے پاکستان کے ساتھ الگ نظریہ بھی دیا‘ کوئی بھی مذہب تشدد کی حمایت نہیں کرتا۔ پاکستان میں اقلیتوں کو یکساں آزادی حاصل ہے۔کوئی بھی مذہب تشدد کی حمایت نہیں کرتا۔ ہر مذہب محبت‘ امن اور سلامتی کو فروغ دیتا ہے کسی کو اپنی مرضی دوسروں پر ٹھونسنے کی اجازت نہیں۔ افغان جنگ کے بعد یورپ نے ہمیں تناہ چھوڑ دیا۔ افغان جنگ کے بعد پاکستان میں دہشت گردی پھیلی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے انتہا پسندانہ سوچ کو روکنا ضروری ہوتا ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق قوانین میں حالیہ تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ وہ منگل کو قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر ) اور پوٹھوہار آرگنائزیشن فار ڈویلپمنٹ ایڈووکسی ( PODA) کے زیر اہتمام اور یورپی یونین (EU ـ) کے اشتراک سے’ اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی‘ کے زیر عنوان سیمینار سے خطاب اور اقلیتی برادری کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے ۔ اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے قائدین نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں سیاست اور مذہب کے انضمام سے ملک میں اقلیتوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے، شفیق چوہدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی کسی بھی تحریک کی بنیاد برابری اور عدم امتیاز کے اصول پر ہوتی ہے۔