حکمرانوں کا وژن ترقی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس مقصد کیلئے باصلاحیت افراد اور متعلقہ اداروں کے ذریعے ملک کی ترقی کیلئے راہ کا تعین کرتے ہیں۔ ہر شعبہ کیلئے مستقل پالیسی کا اجراء کیا جاتا ہے اور پھر کوئی بھی حکومت اس پالیسی پر عمل کرنے کا پابند ہوتی ہے۔ قدرت کاملہ نے ہر خطہ کو مخصوص جہت عطا فرمائی ہے۔ آبی وسائل کی فراوانی کی وجہ سے وادی سندھ زرعی وخوردنی پیداوار میں دوسروں سے ممتاز اہمیت کی حامل ہیں۔ ہماری 80% سے زائد صنعتیں بھی زرعی البنیاد ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ آبی وسائل کو ہی متنازعہ بنا دیا گیا جس کی وجہ سے کالاباغ ڈیم جیسا قومی مفاد کا منصوبہ بھی متنازعہ ہو گیا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی ایسا ادارہ یا فورم ہوتا جو آبی وسائل پر مکمل دسترس رکھتا ہو اور کسی بھی مسئلہ میں اس کی رائے کو آئینی و حتمی اہمیت حاصل ہوتی۔ بلاشبہ مشترکہ مفادات کونسل ملک کی اعلیٰ سطحی آئینی کونسل ہے جس میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہے۔ مگر اس آئینی ادارے کے پاس کوئی ایسا حل نہیں جو تکنیکی بنیاد پر اپنے ملک کے مفاد کیلئے رائے دے سکے چنانچہ دنیا میں سب سے بڑا میٹھے پانی کا ذخیرہ رکھنے والے پاکستان کو آنے والی پارٹی میں قحط زدہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کی نوید سنائی دے رہی ہے۔ آبی وسائل اور صوبوں کے مابین اختلافات کو گہری نظر سے دیکھتے ہوئے ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جو تمام صوبوں کے مسائل سے آگاہی حاصل کرے، ان کی شکایات کا بغور جائزہ لے بلکہ ایسا حل تلاش کرے جو ان کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے میں مددگار ہو سکے۔ اگر نظر دوڑائی جائے تو واپڈا واحد ادارہ ہے جو نہ صرف آبی وسائل پر دسترس رکھتا ہے بلکہ ایسی تمام سرگرمیاں اس کے دائرہ میں آتی ہیں جن کے ذریعے وہ ان تمام شکایات کو دور کرکے بہترین فضا ہموار کر سکتا ہے۔ Water Apportionment Accord 1991 کے بعد صوبوں کے مابین اختلافات کو ختم کرنے کیلئے واپڈا نے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے صوبہ سرحد کے اریگیشن انجینئرز سے ڈائیلاگ کئے اور انہیں کالاباغ ڈیم کی اہمیت کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔ اس حوالے سے 16 ستمبر 1991ء کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں واپڈا کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے لکھا گیا۔ "عوام کی رائے سیاسی مسائل کو حل کرنے میں بڑی اہمیت رکھتی ہے جیسا کہ خصوصی طور پر صوبہ سرحد میں ہوا۔ حکومت سرحد کے آبی ماہرین اور واپڈا کے باہمی دور رس مباحثوں سے بہتری آئی اور وہ کالاباغ ڈیم کے پورے ملک کے عظیم مفادات میں متفق ہو گئے۔
سندھ میں تین مسائل سب سے اہم شمار کئے جاتے ہیں۔ صوبہ میں اگر بے آباد زمین کا جائزہ لیا جائے تو 90 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ پانی سے محروم ہے۔صحرائے تھر کے مکین ہمیشہ پانی کو ترستے رہتے ہیں۔ ان علاقوں کی زرخیزی میں کوئی شائبہ نہیں۔ اک ذرا سی بارش بھی ہو جائے تو صحرائے تھر کے مکینوں کو دو تین سال قحط سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ ان علاقوں کو پانی کس طرح ملے گا؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس طرف کوئی منصوبہ بندی کبھی نہیں کی گئی۔ سندھ کے ساحلی علاقے سمندر کی آویزش کی وجہ سے مسلسل دباؤ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے علاقے برباد ہو رہے ہیں۔ ساحلی اضلاع کا وسیع رقبہ سمندرکے کھاری پانی کے زیر اثر آ کر قابل کاشت رہنا تو الگ بات ہے، دلدلی بن گیا ہے جہاں جانا بھی کاردارد ہے۔
چشمہ بیراج سے سندھ کو پانی کی فراہمی کی جاتی ہے۔ یہاں سے ریلیز ہونے والے پانی کا 10% لاسز میں شمار کرکے بقایا پانی سندھ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے سندھ کو بڑی شکایات ہیں کہ اسے پورا پانی نہیں ملتا۔ ہم صرف پانی کی تقسیم کے فارمولے کی بات کرتے ہیں۔ کبھی سندھ کے ان تین جائز مسائل کے حل کیلئے کوئی ایسی پالیسی نہیں اپنائی گئی جس سے یہ تینوں مسائل حل ہو جائیں۔ خیبر پی کے میں جنوبی 5 اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں، لکی مروت اور کرک خشک اور بنجر ہے۔ چشمہ سے رائٹ بینک کینال نکالی گئی تو ڈیرہ اسماعیل خان کے جن علاقوں کو پانی ملا، وہ جنت نظیر بن گئے اور زندگی کی بہاریں دکھائی دینے لگیں لیکن دیگر علاقوں کو پانی کی فراہمی کیلئے کوئی منصوبہ حتمی طور پر نہیں اپنایا گیا۔ اگر چشمہ سے لفٹ اریگیشن سکیم کے تحت نہر بنائی جائے تو تخمینہ لگایا جا سکتا ہے کہ صوبہ خیبر پی کے کے حصہ میں آنے والے اضافی پانی کی فراہمی کیلئے مسلسل دو ہزار میگاواٹ بجلی درکار ہوگی۔ پھر سلٹ کی وجہ سے یہ سسٹم کس طرح ناکام ہوگا اور اس پر نصب کرنے والی مشینری کس طرح ناکارہ ہو سکتی ہے؟ یہ الگ سوال ہوگا۔ دنیا کے جن علاقوں میں لفٹ اریگیشن کے اصولوں کے مطابق پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ ان جھیلوں میں سلٹ نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ لیکن پاکستان میں سردست تو کیا مستقبل قریب ہی نہیں مستقبل بعید میں بھی کوئی ایسی ترکیب نظر نہیں آتی جب سلٹ ہمارے ڈیموں یا جھیلوں سے ختم ہو جائے۔ ان حالات میں کوئی پاگل ہی لفٹ اریگیشن سکیم کے تحت نہر بنا سکتا ہے۔ صوبہ بلوچستان کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔ انڈس بیسن پر صرف اس صوبہ کے مشرقی علاقے آتے ہیں۔ انہیں سندھ میں گدو کے مقام سے پٹ فیڈر کینال کے ذریعے پانی ملتا ہے۔ کچھ پانی سکھر بیراج کے ذریعے بھی دیا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ سارا ملبہ پنجاب اور ارسا پر ڈال دیتا ہے کہ اسے پورا پانی نہیں ملتا چنانچہ وہ سارا نقصان بلوچستان پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ بلوچستان کے اس مسئلہ کو قطعی طور پر حل کرنے کیلئے کبھی نہیں سوچا گیا۔ جہاں تک بلوچستان کے آبی وسائل کا تعلق ہے۔ بظاہر یہ صوبہ خشک اور بنجر ظاہر کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں اس صوبہ میں پانی کی کوئی کمی نہیں۔ صوبہ میں بہنے والے دریاؤں کی تعداد 16 ہے جن میں چار پانچ سو کلومیٹر لمبے دریا بھی شامل ہیں۔ ژوب، ہنگول، دشت، گومل، ناڑی، بولان، پشین، لورا، مولا، حب، استور، پورالی اور رخشن دریاؤں سے بلوچستان کی خشک بنجر زمینوں کو آباد کیا جا سکتا ہے۔ مغرب میں مکران، خاران اور چاغی رینج اور مشرق میں سلیمان، پب اور کیرتھر رینج کے پہاڑوں کے دامن سے نکلنے والے یہ دریا بلوچستان کو سرسبز بنا سکتے ہیں۔ یہ دریا جب بپھرتے ہیں تو ایسی طغیانی لاتے ہیں جس سے قیامت صغریٰ کا گمان ہوتا ہے اور جب بارشیں ختم ہو جائیں تو پانی بھی دستیاب نہیں ہوتا۔