چیف جسٹس پاکستان کا امید افزاء فیصلہ

کوئی بھی ریاست یکساں احتساب اور شفاف انصاف کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 73 سال ہو چکے ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک پاکستان میں احتساب اور انصاف کا مثالی اور معیاری نظام قائم نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے پاکستان کا شمار آج بھی دنیا کے پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے۔ احتساب کا موجودہ نظام جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں تشکیل دیا تھا۔ نیب کا نظام پہلے دو سال تک بڑی کامیابی کے ساتھ چلتا رہا۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002ء میں عام انتخابات کرائے۔ آمر جرنیل کی بدنیتی اس وقت کھل کر سامنے آ گئی جب اس نے نے وفاق میں حکومت بنانے کے لئے پی پی پی کے ایک درجن سے زیادہ اراکین قومی اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کر انے کے لئے نیب کے ادارے کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ان اراکین اسمبلی کو نیب زدہ بنا کر وفا قی کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔ اگر جنرل پرویز مشرف نیب کے ادارے کو یکساں اور شفاف احتساب جاری رکھنے دیتے تو آج پاکستان کی سیاسی تاریخ مختلف ہوتی۔ جنرل پرویز مشرف تو اقتدار پرست آمر تھا جو آئین توڑ کر اور منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قابض ہوا تھا۔ منتخب حکمرانوں نے بھی نیب کے ادارے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک یکساں اور شفاف احتساب نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس محترم گلزار احمد کا شمار پاکستان کے نیک نام اور درد مند ججوں میں ہوتا ہے۔ ان کا عدالتی ریکارڈ قابل ستائش رہا ہے۔ ان کی دلی خواہش ہے کہ پاکستان کے شہریوں کو ان کے بنیادی آئینی حقوق فراہم کیے جائیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے نیب کے سلسلے میں اُمید اور حوصلہ افزا فیصلہ دیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ احتساب کے نظام کو تیز رفتار بنانے کے لیے 120 مزید احتساب عدالتیں قائم کرے۔ عدالتوں کے جج ایک ہفتے کے اندر نامزد کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ 1226 مقدمات طویل عرصے سے زیر التوا ہیں جبکہ 25 احتساب عدالتوں میں سے پانچ عدالتوں کے جج ہی مقرر نہیں کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے آرڈیننس کے مطابق مقدمات کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کیا جانا چاہئے مگر حقیقت یہ ہے کہ نیب کے کئی مقدمات 20 سال سے زیر التوا ہیں اور ان کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس غیر معمولی تاخیر کی ذمہ داری نیب کے تفتیشی افسروں اور حکومت کے پراسیکیوٹرز پر عائد ہوتی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کو اس حقیقت کا مکمل ادراک ہے کہ جب تک پاکستان سے کرپشن کو ختم نہیں کیا جاتا، پاکستان جمود سے باہر نہیں نکل سکتا اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس پاکستان کا یہ فیصلہ عدالتی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ بنتی ٹوٹتی اُمیدوں کی تاریخ ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ایک بار پھر پاکستان کے مایوس عوام کے دلوں میں اُمید کی کرن پیدا کی ہے اگر وہ اپنی آئینی مدت کے دوران یکساں شفاف اور تیز رفتار احتساب کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ انہیں اچھے نام سے یاد رکھے گی اور اللہ تعالیٰ بھی ان سے راضی ہوگا اور ان کو اس کا اجر عطا کرے گا۔ ایک جائزے کے مطابق احتساب کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچا کر قومی لٹیروں سے دو ہزار ارب روپے وصول کئے جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان اگر قومی لٹیروں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے تو آئندہ کوئی لٹیرا قومی دولت کو لوٹنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ پاکستان کے سویلین ادارے چونکہ زوال پذیر ہیں لہٰذا جوڈیشل ایکٹوازم ریاست کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کرپشن اور احتساب کے نعرے پر اقتدار میں آئے ۔ ان کا سیاسی جمہوری اخلاقی اور آئینی فرض تھا کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد احتساب کو اپنی پہلی ترجیح بناتے اور احتساب کے نظام کو مؤثر فعال اور شفاف بنانے کے لئے بنیادی اقدامات اُٹھاتے مگر افسوس کا مقام ہے کہ وہ عوامی وعدے کے مطابق احتساب کو تیز رفتار بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ مقدمات میں غیر معمولی تاخیر کا نوٹس سپریم کورٹ کو لینا پڑا، حالانکہ عمران خان پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ہونے کی حیثیت سے خود بھی ایسے فیصلے کر سکتے تھے جن سے احتساب کا عمل تیزی سے آگے بڑھتا۔ اب ان کو عدالتی احکامات کے مطابق یہ کام کرنا پڑے گا۔ عدالتوں میں اضافہ کرنے کی ذمہ داری آئینی طور پر وزیراعظم پاکستان پر عائد ہوتی ہے جس کو پورا کرنے میں عمران خان قاصر رہے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ پانچ احتساب عدالتیں خالی پڑی ہیں۔ اگر وزیراعظم عمران خان کے راستے میں مشکلات ہیں اور وہ عوامی مینڈیٹ کے مطابق عوام سے کئے ہوئے وعدے پورے کرنے سے قاصر ہیں تو ان کے لیے آبرومندانہ راستہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے عوام سے دوبارہ مینڈیٹ حاصل کریں۔ نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال بھی نیک نام ججوں میں شمار ہوتے ہیں وہ گاہے بگاہے اپنی کارکردگی کا دفاع بھی کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی کارکردگی نسبتاً بہتر رہی ہے۔ البتہ وہ پاکستان کے عوام کو مطمئن نہیں کر سکے کہ ملزمان ایک سے دو سال نیب کے زیر حراست رہنے کے باوجود مجرم کیوں نہیں بن پاتے اور ان کے مقدمات منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچتے۔ چیئرمین نیب نے اپنی کارکردگی کے تازہ جائزے میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ نیب نے اپنے قیام سے اب تک بدعنوان عناصر سے 4666 روپے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں اور سزاؤں کا تناسب 68 فیصد رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی شکایات میں اضافہ نیب پر عوام کے اعتماد کا ثبوت ہے۔ چیف جسٹس پاکستان محترم گلزار احمد سے التجا ہے کہ وہ نیب کی کارکردگی کو مسلسل مانیٹرنگ کرنے کے لئے ایک مانیٹرنگ جج نامزد کریں اور نیب کا ادارہ ہر ماہ اپنی کارکردگی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے تاکہ عوام کے دلوں میں اُمید کی جو نئی کرن پیدا ہوئی ہے وہ ایک بار پھر مایوسی میں نہ بدل سکے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...