کورونا اور کفایت شعاری

Jul 11, 2020

پاکستان کی پہلی کابینہ کا اجلاس تھا‘ اے ڈی سی لیفٹیننٹ گل حسن نے پوچھا ’’سر اجلاس میں چائے پیش کی جائے یا کافی‘‘ قائداعظم نے چونک کر سر اٹھایا اور سخت لہجے میں فرمایا ’’ یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئیں گے‘‘ اے ڈی سی گھبرا گیا‘ آپ نے بات جاری رکھی ’’ جس وزیر نے چائے کافی پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے یا پھر واپس گھر جا کر پیئے،قوم کا پیسہ قوم کیلئے ہے وزیروں کیلئے نہیں‘‘ اس حکم کے بعد جب تک قائداعظم برسر اقتدار رہے کابینہ کے اجلاسوں میں سادہ پانی کے سوا کچھ سرو نہ کیا گیا۔ قائداعظم کے بعد آہستہ آہستہ ملکی خزانے کو بڑی بے دریغی سے خرچ کیا گیا۔کورونا کی وباء کے باعث پچھلے چار ماہ سے پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کاروبار زندگی تقریباً بند ہو چکاہے۔ذرائع آمدن کم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا کاروبار کافی متاثر ہوا ہے۔ بیرون ملک سے کام کرنیوالے افراد واپس آگئے ہیں۔خاص کر سکول بند ہونے کے باعث اس شعبے سے متعلقہ متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کیلئے گزر بسر کرنا مشکل ہے۔ حکومت کی طرف سے دی گئی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا بہت ضروری ہے کیوں کہ کورونا کے علاج کیلئے سرکاری ہسپتالوں میں جگہ بہت کم ہے اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کروانا غریب کی پہنچ سے باہر ہے۔گھر میں قرنطینہ کے باعث دیگر افراد پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔تعلیم سے وابستہ بے شمار افراد متاثر ہوئے ہیں۔مہنگائی کے اس دور میں اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔رمضان سادگی سے گزرا، عید الفطر بھی نئے کپڑوں کے بغیر گزری،اب عیدالاضحی آنیوالی ہے،دوسر ے اخراجات کے ساتھ ساتھ قربانی کیلئے جانور لینابھی اہم ہے۔کورونا کی وبا کے باعث سماجی فاصلے کے اصول کے تحت دوسرے لوگوں سے ملنا ملانا تو کم ہے لیکن گھریلو اخراجات بڑھے ہیں جب کہ ذرائع آمدن میں واضح کمی ہوئی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی تاحال اضافہ نہیں کیا گیا۔بازار میں جانا کم ہوا ہے لیکن آن لائن آرڈرز کی بھر مار ہے۔ ہر چیز آن لائن حاضر ہے۔ کپڑے، جوتے، کتابیں، الیکٹرانکس کا سامان، پھل سبزی، فاسٹ فوڈ اور تیار کھانا سب فون کی ایک کال پر آجاتا ہے۔بجلی ، گیس اور پانی کے بلوں کے ساتھ ان سہولتوں کے کم استعمال کی درخواست کی جاتی ہے جس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔کوشش کریں گھر میں ایک وقت میں ایک اے سی استعمال ہو۔اسی طرح گیس کی بچت کریں اور پانی کا بھی مناسب استعمال کریں۔آج کل بچوں کی آن لائن کلاسز کی وجہ سے انٹرنیٹ کا خرچہ بڑھ گیا ہے۔کلاسز کے اوقات کے علاوہ انٹرنیٹ استعمال نہ کریں۔اس وقت کو پڑھنے یا دوسرے مثبت کام کیلئے استعمال کریں۔واٹس ایپ میں آج کل بیشمار گروپس بنے ہوئے ہیںاپنے موبائل کی ڈاٹا اور سٹوریج سیٹنگ میں میڈیا آٹو ڈاؤن لوڈ کو ڈس ایبل کریں۔اس سے آپ کے ڈاٹا اور وقت کی بچت ہوگی۔کتب بینی آج کل ہمارے معاشرے سے کم ہور ہی ہے۔اسے دوبارہ اپنانے کی ضروررت ہے۔
آجکل گھریلو بجٹ کیلئے ایک ایپ"حساب کتاب ( HysabKytab)" استعمال کر کے بچت کی جا سکتی ہے اس ایپ میں بینک اکاؤنٹ کا ریکارڈ، تنخواہ کی تفصیل، پنشن، بونس، کرایہ، پرافٹ، بچت،اخراجات بشمول، فوڈ، ٹرانسپورٹ، سفر، فیول، میڈیکل، تعلیم، گھریلو اخراجات، اشیاء خوردونوش، یوٹیلیٹی بلز، شاپنگ اور ذاتی اخراجات کا اندراج کیا جا سکتا ہے۔ کوشش کریں ہفتہ میں ایک دفعہ خریداری کریں۔ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی وجہ سے اکثر اخرجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ فیشن، ٹرینڈ اور سیزن سیل سے اجتناب کریں۔ سادگی اور کفایت شعاری کو اپنائیں۔ اگر چہ آج کل کورونا کی وجہ سے سماجی فنکشن کم ہو رہے ہیں۔ شادی بیاہ کی رسموں کو مستقل بنیادوں پر سادگی سے مکمل کرنا چاہئے۔ مسجد میں نکاح کی رسم اچھی بات ہے لیکن بعد میں کھانے کا انتظام بڑے بڑے شادی ہالز میں نہیں ہو نا چاہئے۔ جہیز کی ڈیمانڈنہیں کرنی چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں شادی کا مروجہ نظام غریب بچیوں کی شادی میں ایک رکاوٹ بن چکا ہے، جسے ختم کرنا ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔
عموماً معاشرے میں تین قسم کے معیارِ زندگی پائے جاتے ہیں:اول : رفاہیت بالغہ ‘یعنی عیاشانہ معیارِ زندگی ‘جس میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی چیز پسند کی جاتی ہے۔ اس طرح حد سے زیادہ بلکہ بے جا خرچ کیا جاتا ہے اور دولت کو ضائع کیا جاتا ہے۔ دوم: رفاہیت ناقصہ‘ یعنی پست معیارِ زندگی‘ جس میں زندگی کی ضروریات بھی پوری طرح حاصل نہیں ہوتیں اور جانوروں کی سی زندگی بسر کی جاتی ہے۔ سوم: رفاہیت متوسطہ‘ یعنی درمیانہ معیارِ زندگی‘ جس میں زندگی کی ضروریات متوسط درجے میں حاصل ہوتی ہیں اور انسان اتنی فراغت پاتا ہے کہ وہ اپنی اور دوسروں کی بھلائی کیلئے بھی کوئی کام کر سکے اور خدا کو بھی یاد کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے رفاہیت بالغہ یعنی عیاشی کو نا پسند فرمایا ہے اور ایسی معاشرت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے جس سے انسان دنیا کی طلب کے اندر ہی الجھ کر رہ جائے اور معیشت کی باریکیوں میں اْترجائے۔ زندگی کی چکاچوند روشنی اور نمود و نمائش سے دور رہنے والے لوگ ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ سادہ اور پروقار زندگی گزاریں۔ نیکی اور سماجی بہبود کے کاموں میں حصہ لیں،یہ آزمائش کا وقت ہے، زندہ قومیں باہمی تعاون کی بدولت ایسے مراحل بخوبی طے کر لیتی ہیں۔

مزیدخبریں