بہت سے معاملات کی طرح پانچ جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے اقدام پر بھی لوگ تقسیم ہیں۔ ہر کسی کے پاس مخالفت اور حمایت میں ’’دلائل‘‘ ہیں۔ 5 جولائی کو کچھ لوگ یومِ سیاہ اور کچھ یومِ نجات مناتے ہیں۔جیالا مائنڈ سیٹ ضیاء الحق کو محسن کش ،جمہوریت دشمن غاصب، ظالم اور قاتل تک قرار دیتا ہے۔جنرل صاحب کی حادثاتی موت کے دن کو بھی کوئی یوم سیاہ اور کوئی یومِ نجات مناتا ہے۔ بھٹو اور ضیاء کے حامی اپنے اپنے ممدوح کے دور کو سنہری دور گردانتے ہیں۔
بھٹو صاحب کو کٹا پھٹا اُدھڑا اور آدھا پاکستان ملا تھا۔ انہوں نے بڑی دانش و حکمت سے رفو گری و شیرازہ بندی کی۔ انکے کریڈٹ پر بہت کچھ ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی شروعات کیں۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ اتوار کے بجائے جمعہ کی چھٹی کا فیصلہ، اسلامی سربراہی کانفرنس کاانعقاد، آئین کی تشکیل ، 33 ہزار فوجیوں سمیت 93 ہزار دشمن کی حراست سے قیدیوں کی رہائی۔۔۔ایک سے بڑھ کر ایک کارنامہ ہے۔ بھٹو سے غلطیاں بھی ہوئی ہونگی جن کو لے کر ان کیخلاف آج بھی کئی حلقے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ بھٹو کے تمام سُنہری کارناموں اور کمالات پر ان کا پاکستان کو دولخت کرنے میں کردار پانی پھیر دیتا ہے۔ پاکستان متحد رہتا تو بھٹو صاحب اقتدار میں کم از کم اُس وقت نہیں آ سکتے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اورشیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی سیٹوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ 70ء کے انتخابات کو پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین قرار دیا جاتا ہے۔ نتائج کی رو سے شیخ مجیب الرحمن اقتدار کے حقدار تھے انہیںاس حق سے محروم کیا تو نوبت پاکستان کے ٹوٹنے تک جا پہنچی۔ یہ شکست ریخت ہزاروں انسانوں کو رزق خاک بنا گئی۔ ہزاروں خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ قتل و غارت اور ریپ مکتی باہنی کی طرف سے بنگالیوں کو اشتعال دلانے کیلئے کئے جاتے اور الزام پاک فوج پر لگایا جاتا۔ مجیب الرحمن اقتدار سے دوری برداشت نہ کر سکے۔ وہ دشمن کے آلہ کار بن گئے، بنگالیوں کو پاکستان اور پاک فوج کیخلاف بغاوت اور ہتھیار اٹھانے پر برگشتہ کرتے رہے۔قدرت نے بدترین شکست کے ذمہ داروں کو دنیا کے سامنے عبرت کا نشان بنا دیا۔ اندرا گاندھی اپنے محافظوں کے ہاتھوں ماری گئیں۔ مجیب الرحمن کو پورے خاندان سمیت سوائے حسینہ کے بنگلہ دیشی فوج نے بھارت کے یوم جمہوریہ پر 15 اگست 1975ء کو قتل کر دیا۔ بھٹو جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں تختہ دار پر پہنچا دیئے گئے۔پاکستان توڑنے والے تینوں بڑے کرداراور ان کے خاندان بھی بربادی کی داستاں بن گئے۔
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو لاہور ہائیکورٹ کی 7 ججوں کی انتظامی کمیٹی نے برطرف کر دیا۔ ارشد ملک نے میاں نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس میں7 سال قید کی سزاسنائی اور فلیگ شپ ریفرنس سے بری کر دیا تھا۔ مریم نواز گزشتہ سال جولائی 2019ء میں ایک ویڈیواور اعلیٰ پارٹی قیادت کے ساتھ میڈیا میں نمودار ہوئیں۔ویڈیو دکھاتے ہوئے جج کی طرف سے دبائو پر فیصلہ دینے کے اعتراف کا دعویٰ کیا گیا۔ اس ویڈیو پر میڈیا میں کہرام کی کیفیت تھی۔ لیگی لیڈروں نے عدالت جانے سے گریز ‘ تاہم میاں نوازشریف کی سزا ختم کرنے کا پرزور مطالبہ کیا۔چند روزمیں ارشد ملک نے حلفیہ بیان جاری کیا جس میں حیران کن انکشافات تھے۔ میاں نوازشریف کو سپریم کورٹ نے علاج کیلئے چھ ہفتے ضمانت پر رہا کیا تھا۔ اس دوران ارشد ملک ان سے رائے ونڈ محل میں ملے۔ جج عمرہ پر گئے تو ویڈیو بنانے والا ناصر بٹ وہاںموجود تھا۔ وہی ارشد ملک کو میاں نواز شریف کے پاس جاتی اُمرا لے گیا تھا۔ اس نے مسجد نبویؐ سے جج کو ساتھ لیکر حسین نواز کے روبرو پیش کیا۔ حسین نے ارشد ملک کو 50 کروڑ روپے نقد اداکرنے اور کسی بھی ملک میں سیٹل کرانے کی پیشکش کی بشرطیکہ میاں نوازشریف کو سزا دبائو پر دینے کا بیان دیدے ۔ انتظامی کمیٹی نے اسی اعتراف پر ارشد ملک کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے کر برطرف کر دیا۔
نوازشریف کے ریفرنسز کے فیصلوں میں ارشد ملک پر دبائو کی ہر جگہ بات ہو رہی ہے۔ ایک طبقہ ان پرمیاں نوازشریف کو سزا اور دوسرا بریت کیلئے دبائو پر یقین رکھتا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس ملک قیوم نے بھی ایک فیصلہ حکومتی دباؤ میںدیا جس کے باعث جج کے عہدے سے فارغ ہونا پڑا تھا۔انہوں نے میاں نوازشریف کی حکومت میں بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس حوالے سے اس دور میں ایک آڈیو کیسٹ سامنے آئی جس میں اس دور کے احتساب کمیشن کے چیئرمین سیف الرحمن کم سزا کا گلہ کرتے ہیں، یہ کیسٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی گئی تھی۔
ارشد ملک دبائو،دھونس یا لالچ میں آئے ؟ اگر آئے تو یہ کس طرف سے تھا؟ اسکے تعین میں ابھی کئی مراحل آئیں گے۔ لیگی حلقوں نے ارشد ملک کی برطرفی پر سرخرو ہونے کا دعویٰ کیا، مٹھائیاں تقسیم، شکرانے کے نوافل بھی ادا کئے۔انکی طرف سے میاں نوازشریف کی سزائوں کے خاتمے کی امید بھی کی جارہی ہے۔ دوبارہ ٹرائل ہوا تو بریت کے امکانات کے ساتھ العزیزیہ میں سزا میں اضافے اور فلیگ شپ ریفرنس میں بھی سزا کا خدشہ موجود ہے۔ کیس شروع ہونے سے قبل ، سماعت کے دوران اور فیصلے کے بعدبھی میاںنواز شریف کے وفادارو جاں نثار ارشدملک سے ملتے رہے۔
میاں نوازشریف تین بار وزیراعظم رہے۔ انکے کارناموں کی بھٹو صاحب کی طرح فہرست طویل ہے۔میٹرو موٹرویز، ایٹمی دھماکے ،سی پیک،پاور پراجیکٹس، صنعتی ترقی کاعروج اور بھی بہت کچھ انکے کریڈٹ پر ہے۔ میاں نواز شریف پرمیگا اور گیگا کرپشن کے الزامات کو صرف نظر کردیں۔ میاں نوازشریف نے جمعہ کی چھٹی ختم کی، سود کے خاتمے کی راہ میں حکومت مزاحم ہوئی۔ ممتاز قادری کو پھانسی لگوانے میں تیزی دکھائی گئی، امتناعِ قادیانیت کیخلاف آئین میں ترمیم کردی، کلبھوشن کی گرفتاری پر سردمہری دکھائی ، مری میں جندال سے وزارت خارجہ کو اعتماد میں لئے بغیر ون ٹو ملاقات،دہلی گئے تو جندال کے گھر جانے کی ضد اورپھر ہائی کمشنر کے منع کرنے کے باوجود چلے گئے۔ آخر اس سے تنہائی میںکیا راز و نیاز مقصود تھے۔ جندال سے مل لئے حریت کانفرنس کو نظرانداز کر دیا۔ ایک موقع پر مسلمانوں کے خون کے قلزم کوپاکستان بھارت کے درمیان ’’محض ایک لکیر ہی تو ہے‘‘قرار دیدیا۔ وزارت عظمیٰ میں نہ رہے تو ممبئی حملوں کاملبہ پاکستان پر ڈالا، عدلیہ کو ممبئی حملوں کے فیصلہ میں تاخیر کا ذمہ دارگردانا۔ پٹھان کوٹ حملے کی ایف آئی آر گوجرانوالہ میں درج کرائی اور پھر حسین نواز نے مدینہ النبیؐ میں بیٹھ کر جج ارشد ملک کو رشوت کی پیشکش کی ۔ نوازشریف مقبول لیڈر ، کروڑوں لوگوں کے دل کی دھڑکن ہیں۔ فوج عدلیہ سمیت ہر ادارے کا سربراہ مرضی سے لگایا کرتے تھے۔ کس کی مجال انکی طرف آنکھ اٹھا سکے مگر قدرت کا مقابلہ کون کرسکتا ہے۔ کوئی بھی شخص کروڑوں لوگوں کو فریب دے سکتا ہے مگر خدا کو نہیں۔ جس پر بھی الزام دھریں جس کو بھی دشنام دیں ‘میاں صاحب کو کوئی انسان عرش سے فرش پر نہیں پھینک سکتا تھا۔ وہ بھٹو صاحب کی طرح قدرت کی پکڑ میں آئے ہیں مگر تھوڑا سا فرق ہے کہ میاں صاحب کے پاس تائب ہونے کا موقع ہے۔