چودھری شجاعت حسین کہتے ہیں کہ کچھ لوگ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کے دھرنے پر دھاوا بولنے کے حامی تھے۔ کوئی وزیراعظم سے بات کرنے کو تیار نہیں تھا، چودھری پرویزالٰہی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ممبر نہیں تھے ان سے کہا گیا کہ وہ عمران خان سے بات کریں۔ چودھری صاحب کے اس بیان کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے تو پہلا حصہ دھرنے ہر دھاوا بولنے کے حامیوں کا ہے اس بات کو درست مان لینا چاہیے کہ ہر حکومت میں ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو ایسی صورتحال میں دھاوا بولنے کی حمایت کرتے ہیں لیکن امن و امان کو قائم رکھنا اور آنے والے پاکستانیوں کو عزت و احترام اور نقصان کے بغیر واپس بھیجنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور یہ کام احسن انداز میں نبھایا گیا ہے۔ جہاں تک تعلق مولانا فضل الرحمن کا ہے تو وہ اپنے منہ پر کالک کے بجائے اسے چھپا کر واپس جانے میں کامیاب ہوئے ہیں ان سے وعدے وعید ہوئے ہوں گے لیکن ان سے کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہوا کہ مولانا کے دھرنے کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کوئی ایسا وعدہ یا یقین دہانی بھی نہیں کروائی گئی کہ آپ پاکستان کے سب سے طاقتور سیاسی مولانا کے طور پر سامنے آئیں گے۔ اگر مولانا فضل الرحمن سے ایسے کوئی بھی یقین دہانی کروائی گئی ہوتی تو وہ یقیناً بتا چکے ہوتے کیونکہ وہ بات پیٹ میں رکھنے کے عادی نہیں ہیں۔ اس معاملے میں وزرا یا ذمہ داران کا وزیراعظم سے جا کر بات نہ کرنا اور انہیں حقیقت نہ بتانے والے معاملے پر بھی چودھری شجاعت حسین کی بات میں وزن ہے کیونکہ آج ملک کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہی حقائق کو چھپانا ہے۔ وزراء صرف وہ بات کرتے ہیں جو ان کے فلسفے کی حمایت کر رہی ہو، عوام کی بھلائی، سنجیدگی سے مسائل حل کرنے پر توجہ دی جاتی تو یقیناً حالات مختلف ہوتے۔ جبکہ وزراء کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقائق وزیراعظم تک پہنچائیں اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی خیانت نہیں ہونی چاہیے۔
جہاں تک تعلق اس معاملے میں چودھری شجاعت حسین اور پرویز الہٰی کے کردار کا ہے تو اس میں کچھ شک نہیں وہ نہایت قابل تعریف ہے۔ جن دنوں مولانا کا مذہب کے نام اور مذہب کی طاقت پر یہ سیاسی دھرنا جاری تھا ہم نے اس وقت بھی چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کے کردار کی تعریف کی تھی۔ ان کی فہم و فراست پر کوئی شک نہیں ہے۔ مولانا کے دھرنے میں اگر معاملہ خوش اسلوبی سے طے پایا تھا تو اس میں چودھری برادران کا کردار قابل تعریف ہے۔
اس خاندان کی خاصیت ہے کہ یہ سیاسی ماحول میں تنازعات اور لڑائی جھگڑوں سے دور رہنے اور سیاسی قوتوں میں تناؤ کے بجائے درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنے میں سرگرم رہتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ قوم یہ بھی سوال کرتی ہے کہ اکبر بگٹی مرحوم اور لال مسجد مسئلہ کے باوجود بات چیت اور مذاکرات کے حل نہیں ہوا تھا کیونکہ دوسرا فریق اپنی ضد پر قائم تھے ان حالات میں جب ایک فریق ضد پر اڑ جائے مصالحت کرانے والوں کے لیے راستہ نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مولانا فصل الرحمٰن کو مائنس آل کا خواب بھی نظر آ رہا ہے انیس سو ستتر میں بھی سیاست دانوں نے مائنس آل ہی کروائے تھے۔ اب مولانا بھی یہی چاہتے ہیں کیونکہ عوامی سطح پر ان کی حیثیت سوالیہ نشان بن چکی ہے کیونکہ آپ صرف مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں، ایک خاص طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس مذہبی طبقے کو اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آپ قومی سطح کی سیاست کریں، قوم کے مسائل کی نشاندہی کریں، حکومتی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے تعمیری سیاست کی طرف آئیں۔ ہم آپکو خوش آمدید کہیں گے لیکن آپکی زبان سے مائنس آل کے الفاظ جچتے نہیں ہیں۔ آپ جمہوریت کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ جمہوریت کے خاتمے کی دعا نہ کریں۔ اس نظام کے لپیٹے جانے کے بجائے اسے بچانے کے لیے میدان میں آئیں۔ کیونکہ ماضی میں جب بھی ہم نے غلطیاں کی ہیں اس کا خمیازہ قوم نے بھگتا ہے۔ انیس سو ستتر میں پی این اے کی تحریک کے نتیجے میں سب مائنس ہو گئے تھے۔ اگر اس وقت بھی تحریک کے ساتھ ساتھ مذاکرات کا راستہ کھلا رکھا جاتا تو مارشل لاء کا راستہ روکا جا سکتا تھا۔ آج بھی اپوزیشن کو مزاحمت کے ساتھ ساتھ نظام کو بچانے کے لیے بھی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے ہم کافی دنوں سے مائنس آل کی بات کر رہے ہیں اس کی وجہ بھی سیاست دانوں کے غیر سیاسی و غیر جمہوری رویے ہیں۔ اگر یہ سب مل کر عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ دیں تو جمہوریت بھی چلتی رہے گی اور عوام کے لیے بھی آسانی پیدا ہو گی۔
آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کی ملاقات بھی ہوئی ہے۔ آصف علی زرداری کو دوبارہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کیونکہ ان کے حوالے سے مختلف افواہیں گردش کرتی رہیں لیکن انہیں ایکشن میں دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔ ان کے لیے بہت دعائیں ہیں۔ ہم آصف علی زرداری سے غیر ذمہ داری کی توقع نہیں رکھتے۔ سیاست دانوں کو اکٹھے ہونا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن جیسے جذباتی انسان کو قابو کرنے کے لیے آصف زرداری جیسے سمجھدار سیاست دان کی ہی ضرورت تھی۔ مولانا یہاں سے پنجاب والوں یعنی ن لیگ سے ملاقاتیں کریں گے اس کے بعد درجہ حرارت بڑھے گا اسے کم کرنے کے لیے مولانا کی ملاقاتیں چودھری برادران سے ہوں گی اور یوں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس سفر کے بعد مولانا اسلام آباد یا پھر ڈیرہ اسماعیل خان میں ڈیرے لگائیں گے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے سرکاری گوداموں سے گندم فوری طور پر فلور ملز کو دینے اور سستے پوائنٹس بنانے کا حکم دیا ہے انہوں نے بیوروکریسی کا یہ مشورہ کہ اکتوبر میں گندم نکالی جائے مسترد کر دیا ہے۔ وزیراعظم کا موقف درست ہے لیکن آپ کے پاس جتنے ذخائر ہیں اگر آپ آج سے گندم نکالتے ہیں تو پھر حکومت کو اکتوبر میں گندم امپورٹ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی پھر آپ کو اس پالیسی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کیونکہ فلور ملز نے گندم سولہ سو سے دو ہزار روپے فی من کے حساب سے گندم خرید رکھی ہے۔ جس دن حکومت کے پاس گندم ایک خاص حد سے نیچے چلی جاتی ہے تو پھر حالات بہت مختلف ہو جائیں گے۔ ابھی سے گندم فلور ملز ایسوسی ایشن اور پورے پاکستان کو دینی ہے پھر گندم امپورٹ کرنے کا بندوبست کرنا ہو گا اس فیصلے کی صورت میں فلور ملز ایسوسی ایشن کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ انہوں نے گندم جس قیمت پر خریدی ہے اس کا ہم ذکر کر چکے ہیں لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ ہم کوئی فلاحی ریاست نہیں ہیں حکومت کو آٹا، گندم، چاول اور چینی جیسی ضروری اشیاء پر ہرممکن سبسڈی دینی چاہیے اور اس معاملے میں امیر غریب کی تمیز کئے بغیر ایک ہی قیمت پر پورے ملک میں دستیابی کو یقینی بنانا چاہیے۔ عوام کو صحت، تعلیم اور دیگر اہم شعبوں میں کوئی سہولت نہیں ملتی تو ان حالات میں کم از کم حکومت کو اپنے وسائل اشیاء خوردونوش پر ضرور سہولت فراہم کرنی چاہیے تاکہ شہری یہ سمجھیں کہ ریاست انکا خیال رکھ رہی ہے۔
شیخ رشید فرماتے ہیں شہباز شریف میری ٹیم کا آدمی ہیں جیسے میں کہوں گا ویسے کریں گے۔ شیخ رشید کے اس بیان پر یہ کہا جا سکتا ہے ہماری سیاست میں ایسے کرداروں نے پاکستان کے فیصلہ سازوں کو کنفیوز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ ہمیشہ ایسا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ شیخ صاحب کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ اب نہیں کوئی سنجیدہ نہیں لیتا۔ وہ ہماری سیاست کے ایک مزاحیہ کردار بن چکے ہیں۔ ٹی وی شوز میں بھی انہیں اسی لیے مدعو کیا جاتا ہے کہ ایک گھنٹہ اچھا گذر جائے گا۔
لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کے بارے سخت الفاظ استعمال کیے ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو فوری طور پر وزارتِ قانون کی سرزنش کرنی چاہیے بلکہ اس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرتے ہوئے ایسے افراد کو سامنے لایا جائے جو آئین و قانون اور عوامی ضروریات کو سمجھتے ہوئے قانون سازی کر سکیں۔ حکومت اور عدالت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اس لیے اگر عدالت سے حکومت کے بارے ایسے ریمارکس آتے ہیں تو اس سے عوامی سطح پر بھی بے چینی پھیلتی ہے اور حکومت کو بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔