بوسنیا کے مشرقی شہر سربرینیکا میں سرب افواج نے صرف 10 دن میں آٹھ ہزار مسلمانوں کو قتل کیانسل کشی کی اس بدترین واردات کو 25 سال گزر چکے ہیںلیکن مقتولین کی شناخت اور تدفین اب بھی جاری ہے۔مقامی میڈیارپورٹس کے مطابق ہفتے کو ان آٹھ مردوں اور لڑکوں کو شہر کے باہر واقع قبرستان میں سپرد خاک کیا گیاجن کی حال میں شناخت ہوئی ہے۔ ان کی قبروں کے کتبے پر وہی مہینہ اور سال لکھا ہے جو ہزاروں دوسری قبروں کے کتبوں پر لکھا ہے۔یہ قتل عام دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کا بدترین واقعہ تھا جس میں قاتلوں نے اپنا جرم چھپانے کی بھرپور کوشش کی۔ انھوں نے مقتولین کو پہلے اجتماعی قبروں میں دفن کیا اور کچھ عرصے بعد بلڈوزر سے باقیات نکال کر مختلف قبرستانوں میں بکھیر دیں تاکہ انھیں شناخت نہ کیا جاسکے۔یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد ملک میں خانہ جنگی کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔ 1992 سے 1995 تک جاری رہنے والی لڑائی کے تین فریقوں میں سرب، کروٹ اور مسلمان شامل تھے۔ 1993 میں سربرینیکا میں قتل عام اس لیے زیادہ اندوہناک واقعہ تھا کہ اسے اقوام متحدہ نے دارالامن قرار دیا تھا۔1996 میں مقامی اور بین الاقوامی سائنس دانوں نے وہ کام شروع کیا جسے دنیا کا سب سے بڑا فورینسک معمہ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اجتماعی قبروں کو کھول کر باقیات کے ڈی این اے کرنا شروع کیے اور ان کے رشتے داروں سے سلسلہ ملانے لگے۔سال 1996 میں انٹرنیشنل کمیشن آن مسنگ پرسنز اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے کہنے پر قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد یوگوسلاویہ کی خانہ جنگی میں لاپتا ہوجانے والے 40 ہزار افراد کا سراغ لگانا تھا۔ ان کی اکثریت کا تعلق بوسنیا سے تھا۔2014 میں کمیشن عالمی تنظیم بن گیا اور صدر دفتر دی ہیگ منتقل ہوگیا۔ لیکن اس سے پہلے وہ بلقان جنگوں کے 70 فیصد متاثرین کا سراغ لگاچکا تھا۔ ان میں سربرینیکا کے آٹھ ہزار میں سے سات ہزار مقتولین شامل ہیں۔جب کسی شخص کی باقیات کی شناخت ہوجاتی ہے تو انھیں اس کے رشتے داروں کے حوالے کردیا جاتا ہے اور وہ انھیں برسرینیکا کے قبرستان میں سپرد خاک کرتے ہیں۔ 1995 میں قتل عام 11 جولائی کو شروع ہوا تھا۔ اب ہر سال اس تاریخ کو متقولین کے لواحقین حال میں شناخت کیے گئے افراد کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں۔