تھانہ کلچر میں تبدیلی کا واحد حل شہریوں سے خوش اخلاقی، حسن سلوک اور بہترین سروس ڈلیوری میں پنہاں ہے۔پولیس کے انفرادی و اجتماعی مثبت تشخص کا فروغ عوام دوست کمیونٹی پولیسنگ کا لازمی جزو ہے۔ مظلوموں کو عدالتوں میں انصاف کی فراہمی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے انویسٹی گیشن کے شعبہ کو مضبوط بنایا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک افسوسناک اور قابل فکر خبرنظر سے گزری کہ پنجاب کے ضلع قصور میں پچاس فیصد پولیس اہلکار منشیات کا استعمال کرتے ہیں،ٹیسٹ میں منشیات کے استعمال کی تصدیق ہوگئی،محکمہ پولیس میں اصلاحات لانے کے لئے پنجاب پولیس صوبے بھر میں اپنے تمام عملے کا ڈرگ ٹیسٹ کروا رہی ہے، جس میں پچاس فیصد عملہ منشیات کا عادی نکلا ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) نے کانسٹیبل سے لے کر پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی) افسران تک کے عہدیداروں کا ڈرگ ٹیسٹ کروانے کی ہدایت جاری کی تھی۔ذرائع کے مطابق اہلکاروں کو داخلی انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر منشیات کے ٹیسٹ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ضلعی پولیس نے کسی سرکاری ہسپتال کی لیبارٹری کے بجائے نجی لیب سے نمونوں کے ٹیسٹ کرائے تھے۔اس بارے میں آئی جی پنجاب انعام غنی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کے وژ ن کے مطابق پولیس فورس کو منشیات کے عادی افراد سے پاک رکھنے کیلئے تمام اضلاع میں افسران واہلکاروں کے ڈرگ ٹیسٹ کئے جائیں گے جبکہ منشیات کے عادی افسران واہلکاروں کے خلاف سخت محکمانہ و قانونی کارروائی میں ہر گز تاخیر نہیں کی جائے گی۔ ان کے مطابق کسی بھی طرح کا نشہ یا منشیات استعمال کرنے والے افسران و اہلکاروں کی محکمہ پولیس میں کوئی جگہ نہیں اور اس قبیح فعل میں ملوث افسران و اہلکاروں کو کسی صورت پولیس فورس کا حصہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔مستند لیبارٹریز سے ڈرگز ٹیسٹ کے دوران پوزیٹو آنیوالوںکا دوبارہ ٹیسٹ نہیں کروایا جائے گا جبکہ ہیلتھ پروفائلنگ ایک مسلسل عمل ہے جسے مستقبل میں بھی ہر سطح پر جاری رکھا جائے گا۔آئی جی پنجاب نے افسران کو ہدایات دیتے ہوئے کہا پولیس ریفارمز کے تحت خود احتسابی کا شفاف اور غیر جانبدار عمل پنجاب پولیس کی ترجیحات میں شامل ہے اور اس حوالے سے ہر سطح پر اقدامات جاری رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بطور فیشن یا عادتا ًنشہ آور اشیاء استعمال کرنے والے افراد کو کسی صورت فورس کا حصہ نہیں رہنے دیاجائے گا کیونکہ یہ نااہل افسران و اہلکار نہ تو اپنی محکمانہ ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرسکتے ہیں اور نہ ہی پبلک سروس ڈلیوری کے عمل کو بہتر بناکر شہریوں کیلئے سہولت اور آسانی کا باعث ہوتے ہیں بلکہ یہ نا اہل اپنے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے پولیس فورس اور محکمہ کیلئے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔اس ضمن میں صرف آئی جی پنجاب کابیان اورعملی اقدام ہی کافی نہیں ہے، ڈی پی اوز، آر پی اوز اور سی سی پی او سمیت دیگر اعلی افسرا ن کوبھی عملی طور پر میدان میں اترنا ہوگااور زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا تاکہ اس شعبے میں وزیر اعظم کے وژن کے مطابق عملی اصلاحات کی جائیں کیونکہ اس شعبے پر تنقید زیادہ اور تعریف کم ہی ہوتی ہے۔پاکستان میں پولیس کا محکمہ ہمیشہ سے تنقید کی زد میں رہا ہے مگر حالیہ دنوں میں پنجاب پولیس کی جانب سے تشدد کے واقعات سامنے آنے کے بعد صوبائی پولیس کو شدید تنقید کا سامنا ہے جبکہ اصلاحات کے مطالبات میں بھی تیزی آئی ہے۔حکمران جماعت تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد پنجاب پولیس میں اصلاحات لانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل د ی لیکن یہ پہلی مرتبہ نہیں بلکہ ماضی میں بھی متعدد مرتبہ اس خطے کی پولیس میں اصلاحات لائی گئی ہیں۔تقسیم ہند سے قبل انگریز دورحکومت میں 1860 میں پولیس میں اصلاحات لائی گئیں جس کے تحت صوبے کی پولیس کا انتظام آئی جی اور ضلع میں پولیس ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کے ماتحت مجسٹریٹ کے کنٹرول میں ہوتی تھی۔ان اصلاحات پر 1861 میں عمل درآمد شروع کیا گیا اور 1947 میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد 1861 میں کی گئی اصلاحات ہی لاگو رہیں۔پاکستان کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ 2002 میں جنرل مشرف کے دور حکومت میں پولیس کے نظام میں بہتری لانے کے لیے قانون سازی کی گئی جس میں ضلعی مجسٹریٹ کی طاقت کو ختم کر دیا گیا اور پولیس کو غیر سیاسی اور آزاد محکمہ بنانے کے لیے مزید اصلاحات کی گئیں۔ اس کے بعد پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا کی پولیس میں 2017 میں اصلاحات کیں ۔