سترہ سال پرانی بات ہے ملتان میں طاہرشریف نامی ایک شخص نے ’’مددکمیٹی‘‘ بناکر پندر دنوں میں پیسے دُگنے کرنے کا جھانسہ دے کر ہزاروں لوگوں کو اربوں روپے سے محروم کردیا ۔شجاع آباد، وہاڑی روڈ سمیت شہر کے مختلف علاقوں کے بنک اکاؤنٹس خالی ہونے لگے اور لوگ پیسے’’مدد کمیٹی ‘‘ میں جمع کروانا شروع ہوگئے۔ ملتان پولیس کو حصہ بقدر جثہ ملنے لگا اور بہت سے اخبار نویس طاہر شریف کے میڈیا ایڈوائزر بن گئے ۔ میں نے ایک عام آدمی کی حیثیت سے اس علاقے میں جاکر معلومات لیں تو پتہ چلا کہ ہر تیسرے چوتھے روز اس کے گھر لوہے کی نئی پیٹی یا ٹرنک آتا ہے جو فوری نوٹوں سے بھرجاتا ۔ پندرہ دنوں میں دُگنی رقم کی واپسی کا پرکشش وعدہ التوا کا شکار ہونے لگا اور دگنی رقم کی بجائے منافع بھی گھٹنے لگا تو لوگوں کو فکر لاحق ہوئی ۔پیسہ واپس مانگنے والوں کا دباؤ بڑھا تو زور آور کو پیسے جبکہ کمزور کو دھکے ملنے لگے۔پرانا شجاع آباد روڈ کے مذکورہ علاقے میں اپنا سروے مکمل کرنے کے بعد میں دفترآیا، خبر بنائی اور رات ایک بجے گورنر ہاؤس لاہور ٹیلیفون کرکے تمام صورتحال بتائی ۔ تب دور پرویز مشرف کا تھا اور گورنر اختیارات کا سرچشمہ تھے۔گورنر ہاؤس کے ٹیلی فون آپریٹر نے طویل گفتگو کہا گورنر صاحب سو رہے ہیںاس وقت بات نہیں ہو سکتی ۔ آپ کا کوئی مسئلہ ہے تو لکھ کر بھجوا دیں ۔میں نے جواب دیا کہ گورنر صاحب کو ایک پیغام دے دینا کہ ’’جب حکمران نیند کے مزے لیں تو قوم کی نیندیں اُڑ جایا کرتی ہیں۔‘‘ اپنے دل کا جو غبار نکالنا تھا جی بھر کر نکالا اور فون بند کردیا ۔اگلی رات مجھے گورنر ہاؤس سے اطلاع ملی کہ ایکشن ہوچکا ہے اور پولیس نے سب کچھ قبضے میں لے لیا ہے۔ جب کروڑ ہا روپیہ بغیر کسی ریکارڈ کے پولیس کے قبضے میں پہنچا ، متاثرین کو ادائیگیاں شروع ہوئیں تو مجھے اپنی درسی کتاب میں پڑھی وہ کہانی یاد آگئی جس میں روٹی کے ٹکڑے پر دوبلیاں آپس میں لڑ پڑی تھیں اور بندر ترازو لیکر ان کے درمیان فیصلہ کروانے آگیا اس نے روٹی کو برابر تقسیم کرنے کی بجائے ایک پلڑے میں زیادہ اور دوسرے میں کم رکھ دی ، پھر زیادہ روٹی پلڑے والے سے ایک بڑانولہ خودکھالیا تو دوسرا پلڑا ہلکا ہوکر اوپر کو اٹھ گیا ۔اس طرح بلیاں منہ دیکھتی ہی رہی گئیں اور بندر ساری روٹی کھاگیا۔اس کیس میں کچھ بڑے بڑے بندر بھی شامل ہوگئے اور اپنا اپنا حصّہ لیکر چلتے بنے۔ پھر سینکڑوں کی تعداد میں لُٹنے والوں کو معاوضہ کی بجائے مصافحہ پر ہی ٹرخا دیاگیا۔
گزشتہ جمعرات 7 جولائی کو روزنامہ نوائے وقت جہانیاں کے نمائندے چودھری عرفان اسلم نے اس کالم نگار سے رابطہ کیا اور بتایا کہ ایف ایس سی کے امتحانات میں پانچ کی بجائے تین پیپر لیے جانے کے فیصلے سے ہزاروں غریب طلبہ و طالبات جو دیہاتوں میں رہنے کی وجہ سے ہمیشہ انگلش میں فیل ہوتے ہیں، نے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے اور انگلش و اُردو کے پیپر نہ لیے جانے کی پالیسی سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کیلئے لیٹ فیس کے ساتھ داخلے بھرنے شروع کردئیے ہیں ۔ جیسا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومت پاکستان اور ہماری نوکر شاہی کے بارے میں ایک مسلمہ اور مصدقہ تاثر پوری آب و تاب سے موجود ہے کہ یہاں اپنے ہی عوام کو لوٹے جانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ۔اور جو پالیسی بنائی جاتی ہے اس کا واحد ایجنڈا عام آدمی کی جیب خالی کرنا ہوتا ہے ۔
کسی زمانے میںانٹر کاد اخلہ لیٹ فیس کے ساتھ دس روپے یومیہ کے حساب سے لیاجاتا تھا ۔ جہانیاں کی بچی کو لیٹ فیس کے سات 53 ہزار 625 روپے کا چالان فارم دے دیا گیا ۔اس سلسلے میں جب اس کالم نگار نے چیئرمین ملتان بورڈ پروفیسر محمد نواز سے رابطہ کرکے انہیں درخواست کی کہ بچی کی داخلہ فیس میں کوئی رعایت کی جائے تو انہوں نے کہا پہلے ہمارے پاس اختیار تھا ہم رعایت کردیتے تھے لیکن تین روز قبل حکومت پنجاب نے یہ رعایت واپس لے لی ہے ۔ مزید ذرائع سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ قوم کے مستقبل کیلئے بھاری جرمانے کی یہ اعلی ترین ’’ سہولت‘‘ فراہم کرنے کا سہرا سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ندیم محبوب کے سر ہے اور انہو ں نے یہ بھی حکم جاری کیا ہے کہ پنجاب کے 9 تعلیمی بورڈز میں جو پہلے رعایت دی ہے وہ بھی واپس لی جاتی ہے اور رعایت دینے کے اختیارات بھی سلب کیے جاتے ہیں ۔ اب سب بچے تین گنا لیٹ فیس اور 500 روپے یومیہ جرمانے کے حساب سے اگر فیس جمع کرواسکتے ہیں تو انہیں امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے بصورتِ دیگر انہیں امتحان میں نہ بیٹھنے دیا جائے ۔اس طرح امتحان دینے کے خواہش مند طلبہ وطالبات کو گھر بیٹھے بٹھائے 50 سے 60 ہزار روپے کی ’’چٹی‘‘ پڑ گئی ۔ سینکڑوں طلبہ و طالبات کا مستقبل تاریک ہوتا دیکھ کر نوائے وقت ملتان نے بچوں کی آواز کو اعلیٰ حکام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا اور فوری طور پر پر نسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعلیٰ پنجاب طاہر خورشید کوان کے موبائل پر واٹس ایپ میسج کے ذریعے اس تمام صورتحال سے جمعرات کے روز دوپہر ایک بجے آگاہ کیا اور انہیں درخواست کی کہ اس میسج کو سن کر فوری ایکشن لے لیں اور ایک ہی حکم نامے کے ذریعے ہزاروں طلبہ وطالبات کی دعائیں سمیٹیں ۔
پرنسپل سیکرٹری تو سی ایم پنجاب طاہر خوشید نے فوری طور پر ، وزیراعلی جو ڈیرہ غازی خان کے دورے پر تھے، سے رابطہ کیا اور اس کالم نگار کا پیغام پہنچایا۔ سہ پہر اڑھائی بجے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن پنجاب کو حکم جاری کردیا گیا کہ اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔جمعرات 8 جولائی کی شام چھ بجے پنجاب کے تمام تعلیمی بورڈز کو وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے ہدایات جاری کردی گئیںکہ تمام اُمیدواروں کو خصوصی رعایت دے کر ان کے داخلہ فارمز جمع کیے جائیں ۔
الحمدللہ نوائے وقت ملتان کی معمولی کاوش سے پنجاب کے ہزاروں طلبہ وطالبات جو امتحان کی تیاری کیے بیٹھے تھے اور ہزاروں روپے فیس نہ ہونے کی وجہ سے امتحان میں شرکت سے محروم کردئیے گئے تھے انہیں بھرپور موقع مل گیا کہ وہ اب امتحان میں شرکت کرسکیں گے ۔