کیا آپ شاعر ہیں؟ اکثر لوگ کہیں گے’نہیں‘۔ لیکن آپ اگر یہ سوال اپنے کسی قریبی دوست سے کریں اور اس کا جواب وہ نفی میں دے تو ان سے دوسرا سوال یہ کیجیے، کیا آپ نے اپنی زندگی میں کبھی شعر کہنے کی کوشش کی؟ تو اس کا جواب زیادہ تر اثبات میں ہوگا۔ مثل مشہور ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ اگر کسی نے باقاعدہ شعر کہنے کی کوشش نہ کی ہو تو پھر بھی ہم لوگ مختلف اشعار، صحیح یا غلط، موقع بے موقع پڑھنے کو تیار رہتے ہیں۔ شعری ذوق کی یہ فراوانی یوں تو وطن عزیز کے ہر کونے کھدرے میں نظر آ جائے گی مگر اس سلسلے میں کوئی دوسری جگہ مقابلے میں کراچی کے قریب بھی نہیں پہنچتی۔ حالات کتنے بھی خراب ہوں۔ کرفیو لگا ہوا ہو یا فسادات ہو رہے ہوں، کسی نہ کسی محلے میں مشاعرہ ہو رہا ہوگا، جو رات بھر جاری رہے گا۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کراچی میں اردو کے شعرا ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ پنجاب کے مختلف شہروں بلکہ قصبوں تک میں آبادی کے تناسب کے مطابق صدہا نہیں تو درجنوں شاعر مل جائیں گے۔ آپ ان میں سے کسی کے قابو آگئے تو ان کا کلامِ بلاغت نظام سنے بغیر چھٹکارا نہیں پا سکیں گے۔
تقسیم ملک سے پہلے ایک انگریز ہندوستان آیا اور اس نے شاعروں کی کثرت دیکھی تو لکھا کہ اس کا سب سے بڑا سبب ’داد‘ ہے۔ مشاعروں یا شعری نشستوں میں شعرا اور سامعین ہر شعر بلکہ ہر مصرعے پر بے تحاشا داد دیتے ہیں۔ انگلستان میں اگر وہاں کا کوئی بہترین شاعر اپنی بہترین نظم سنائے تو نظم ختم ہونے پر سامعین ’خوب یا بہت خوب‘ سے زیادہ کچھ نہیں کہیں گے مگر ہندوستان میں لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر بلکہ اپنی نشستوں پر اچھل اچھل کر اور اٹھ اٹھ کر داد دیتے ہیں۔ داد و تحسین کی یہ خواہش ہی شعرا کی کثرت کا بہت بڑا سبب ہے۔ ہمارے ہاں اشعار کے استعمال کے تنوع پر کبھی غور کیجیے۔ ٹرکوں ، بسوں اور رکشوں پر لکھے ہوئے شعر، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دیواروں یا سائن بورڈوں پر لکھوائے ہوئے شعر، درختوں کے تنوں کی چھال کو چاقو سے چھیل کر کندہ کیے ہوئے شعر، محلے کی دیوار پر نامعلوم خطاطوں کی خطاطی کا اشعار کے روپ میں اظہار، اساتذہ اور طلبہ کا تحقیقی مقالات میں دلیل کی جگہ شعر کا استعمال، ٹی وی اور ریڈیو کے مباحثوں میں حسبِ ضرورت یا بلا ضرورت استدلال میں زور پیدا کرنے کے لیے شعر کی پیوندکاری، پروگراموں کی نظامت کرنے والوں (اینکر پرسنز) کا موزوں اور ناموزوں اشعار سے شخصیات کا تعارف، منبر و محراب پر گونجتے ہوئے ائمہ اور خطیبوں کے اشعار، عدالتوں میں وکلا کا قانونی بحثوں میں اشعار کا استعمال (خواہ ملزم پھانسی ہی پا جائے)، منصفین کا اپنے فیصلوں میں شعر لکھنا وغیرہ وغیرہ۔
ہاں ! شعر کے استعمال کا ایک اور ذریعہ ہے جس کا ذکر میں نے سطورِ بالا میں عملاً ابھی نہیں کیا وہ ہے اخباروں کے کالموں کو اشعار سے مزین کرنا۔ اس وقت ہمارے بڑے اخباروں میں ہر روز تقریباً ایک درجن کالم فی اخبار شائع ہوتے ہیں۔ کالم نگاروں کی خاصی بڑی تعداد شاعری سے شغف کا اظہار کرتی ہے۔ بعض کالم نگار تو دو چار شعروں کو نثر سے پیوند کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن بعض کالم نگار تو کبھی کبھی کالم میں اول تا آخر شعر ہی شعر لکھتے چلے جاتے ہیں۔ بعض کالموں میں پوری پوری نظمیں دکھائی دیتی ہیں۔ بعض اشعار تو کالم نگاروں کو اتنے پسند ہیں کہ ہر دوسرے تیسرے دن انھی کو لکھ ڈالتے ہیں۔ منیرنیازی کا یہ شعر تو خاص طور پر ان اہلِ قلم کو بہت پسند ہے:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
بعض اور اشعار جو ضرب المثل ہو گئے ہیں وہ کالموں میں بار بار لکھے جاتے ہیں۔ جو کالم نگار شاعر بھی ہیں انھیں تو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے کالموں کو اپنے ہی اشعار سے بھر دیتے ہیں۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔
شوقِ فراواں کی مختصر کہانی تو آپ نے پڑھ لی۔ اب اگلی بات یہ ہے کہ متعدد کالم نگار شوقِ شعر کے ساتھ ساتھ ذوقِ شعر کے بھی حامل ہیں۔ ان سے اصل اشعار میں عموماً نادانستہ ردوبدل ہو جاتا ہے، کہیں ایک دو لفظ کم ہو جاتے ہیں یا ایک دو لفظ زیادہ ہو جاتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ شعر ناموزوں یا بدآہنگ ہو جاتا ہے۔ آہنگ شاعری کی موسیقی ہے۔ اگر کوئی گانے والا بے سُرا ہو جائے تو کیسا لگتا ہے؟ مہدی حسن کی گائی ہوئی کسی بہترین غزل کو کوئی بے سُرا گانے لگے اور داد طلب بھی ہو تو آپ کیا کریں گے؟بے وزن اشعار کالموں میں لکھنا بدذوقی کی دلیل تو ہے ہی مگر کالموں کے قارئین ان سے گمراہ بھی ہوتے ہیں اور پھر یہ اغلاط سند کے طور پر استعمال ہونے لگتی ہیں۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ شعر کا وزن ٹھیک ہے لیکن کچھ الفاظ بدل گئے ہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی کے اشعار میں ردوبدل کرے۔ یہ کام نقادوں نے بھی کثرت سے کیا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ نقاد کو اگر تنقیدی مضمون لکھتے ہوئے شعر پوری طرح یاد نہ آئے تو وہ خود ہی وزن پورا کرنے کے لیے الفاظ میں تبدیلی کر لیتا ہے۔ اگر وہ نامور نقاد ہے تو لوگ اس کے لکھے کو سند جانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دیوان یا کلیات آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے اور اگر ہوں بھی تو انھیں دیکھنے کی فرصت کسے میسر ہے؟ اساتذہ کے بے شمار اشعار جس طرح رائج ہو گئے ہیں سمجھا جاتا ہے کہ وہی ان کا اصل متن ہے۔ میں آئندہ کالم میں کچھ مثالیں درج کروں گا تا کہ واضح ہو جائے کہ بعض مشہور شعر تبدیل ہو کر کیا سے کیا بن گئے۔ ایک اور بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ شعر کسی کا ہے اور منسوب کسی اور سے کر دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ظلم علامہ اقبال پر کیا جاتا ہے کہ خدا معلوم کتنے ہی اچھے برے شعر ان سے منسوب کر دیے گئے ہیں۔ پھر یہ مشقِ ستم غالب پر بھی کی گئی ہے۔ باقی شعرا بھی اس سے نہیں بچے۔
ان سطور کے حوالے سے میں معزز کالم نگاروں سے گزارش کرتا ہوں کہ اگر اپنے دلائل کو اشعار سے مرصع کرنا چاہیں تو کم از کم اس کی جانچ پڑتال کر لیا کریں کہ شعر وزن میں ہے یا نہیں؟ اور الفاظ میں ردوبدل تو نہیں ہو گیا؟ اور شعر اسی شاعر کا ہے جس سے منسوب کیا جا رہا ہے؟ شعر کے اسلوب سے ہمیشہ یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کس کا شعر ہے؟ اس کے لیے حوالے کی کتابیں اپنے پاس رکھیے۔ غالب نے بجا فرمایا ہے کہ شعروں کا انتخاب ہمیں بدنام بھی کر سکتا ہے اور نیک نام بھی:
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے