تذکرہ ٔ دلیپ کمار،نشانِ پاکستان و ملکۂ برطانیہ (2)

’’ملکہ الزبتھ اوّل / اونچا مینار !‘‘ 
ملکہ ایلزبتھ اوّل نے ایک بہت اونچا مینار بنوایا اور وہ اُسے دیکھنے کے لئے ولیم شیکسپیئر سمیت اپنے کئی مصاحبین کو ساتھ لے گئی ۔ مینار کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ملکہ تھک گئی تو اُس نے، "Visitor`s Book"  میں لِکھا کہ۔ ’’مَیں اِتنی بلندی پر آ گئی ہوں کہ مجھے چکر آنے لگے ہیں ‘‘۔پھر "Visitor`s Book" پر ولیم شیکسپیئر نے لکھا کہ ’’ملکہ معظمہ! جب آپ میں طاقت ہی نہیں تھی تو آپ کو اتنی بلندی پر آنے کی کیا ضرورت تھی؟ ‘‘۔میری معلومات کے مطابق 1952ء سے ملکہ ٔ برطانیہ کا منصب سنبھالنے کے بعد الزبتھ دوم ملکہ ٔ معظمہ نے کوئی اِس طرح کا مینار نہیں بنوایا کہ جب وہ سیڑھیاں چڑھیں تو تھک جائیں؟ ۔ 
"Commonwealth!"
ملکۂ الزبتھ دوم سے پہلے 6 فروری 1952ء تک "George VI" برطانیہ کے بادشاہ رہے ۔ بہر حال برطانوی حکومت نے یہ کمال کیاہے کہ ’’ اُس نے اپنے غلام ملکوں کو آزاد کر کے اُنہیں ’’ دولت ِ مشترکہ ‘‘ (Commonwealth) کے جال میں جکڑ لِیا، دولت ِ مشترکہ کے سربراہی اجلاس میں ( سابق غلام قوموں کے ) منتخب صدور و وزرائے اعظم یا غیر منتخب فوجی آمروں کو ملکۂ برطانیہ کے برابر کرسیوں پر بٹھایا جاتا ہے تو اُن سب کی باچھیں کھِل جاتی ہیں اور اُن کا نیا شجرہ ٔ نسب بن جاتا ہے؟۔ 
’’…… لندن ہے پیر خانہ !‘‘ 
’’ پاک پنجاب ‘‘ کے لوگوں میں یہ ضرب اُلمِثل مشہور ہے کہ ’’ لہور ، لہور اے ‘‘ تے’’جیہنے لہور نئیں ویکھیا اوہ جمیّا ای نئیں!‘‘ اِسی طرح ولیم شیکسپیئر نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ"To Be In London is a Bliss!"  یعنی ۔ ’’لندن میں رہنا گویا کامل مسّرت، ترنگ، سرُور ، رُوحانی سکون یا عالمِ بالا میں ہونے کی کیفیت ہے؟ ‘‘ لیکن، مصّور پاکستان علاّمہ اقبالؒ اور بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے لندن ( انگلینڈ ) میں رہ کر بہت کچھ سیکھا لیکن اُن کی بصیرت سے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن حاصل ہُوا لیکن، ہمارے اکثر پاکستانی سیاستدانوں کا نظریۂ  میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے اِس طرح بیان کِیا ہے کہ …
’’پانامہ لِیکس کا تو ، بس بن گیا بہانہ!
بخشا خُدا نے ، ہم کو ، اندازِ مُجرمانہ!
…O…
آزاد ہیں تو کیا ہے ؟ سیاست ؔہے عاجزانہ !
ملکہ ؔہماری مُرشد ، لندن ؔہے پِیر خانہ !‘‘
…O…
’’ہیرو ، دلیپ کمار اور بھٹو ! ‘‘ 
نہ صِرف ’’ دولت ِ مشترکہ ‘‘ بلکہ پوری دُنیا کے ملکوں کے لئے لندن ایک بہت بڑا سٹیج ہے، جس پر ہر ملک کے چھوٹے ، بڑے اداکاروں ( خاص طور پر ) حکمرانوں ، بادشاہوں ، فوجی آمروں اور منتخب صدور و وزرائے اعظم کو اپنی اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے کے مواقع ملتے ہیں ، اُن میں سے زیادہ تر خُود کو "Hero" قرار دیتے ہیں، بھارتی اداکار دلیپ کمار سے بھی بڑے "Hero" ۔ معزز قارئین !"Hero" یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تھے ہیں ’’ محبوب، مقبول، سربر آوردہ ، مافوق اُلفطرت، خصوصیات کا حامل مرد اور ( ہندی زبان میں ) سُورما ‘‘ ۔
30 نومبر 1967ء کو( اُن دِنوں )جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی چیئرمین شپ میں اپنے دو اڑھائی سو دوستوں اور عقیدت مندوں کوساتھ ملا کر ’’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ قائم کی تو اُن دِنوں بھی دلیپ کمار ایک ہیروؔ کے طور پر معروف تھے ۔ اپنی پارٹی کے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہُوئے جنابِ بھٹو نے کہا تھا کہ ’’ میرے مخالفین میرے بارے کہتے ہیں کہ’’ عوام میری سیاسی باتیں سننے کے لئے نہیں بلکہ مجھے دیکھنے کے لئے آتے ہیں ‘‘۔ پھر بھٹو صاحب نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیر کر پوچھا کہ ’’ کیا مَیں کوئی دلیپ کمار ہُوں؟‘‘۔ یاد رہے کہ ’’ جنابِ بھٹو تا حیات  ’’ قائد ِ عوام ‘‘ اور ’’ فخر ایشیا ‘‘ کہلاتے رہے اور دو بار منتخب وزیراعظم بھٹو صاحب کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو ’’ دُختر ِ مشرق ‘‘ ۔ 
’’ لندن پلان / میثاقِ جمہوریت ! ‘‘
معزز قارئین ! یوں تو لندن میں عرصۂ دراز سے بہت سے  "London Plan" اور ’’ فلان ڈھمکان ‘‘ ہو رہے  ہیں لیکن صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں دو سابق جلا وطن وزرائے اعظم میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے 14 مئی 2006ء کو جس (لندن پلان) ’’ میثاقِ جمہوریت ‘‘ (Charter of Democracy) پر دستخط کئے، اُس کی شہرت / بدنامی کا مختلف اوقات میں ، مختلف انداز میں چرچا ہُوا ۔بعض سیاسی مبصرین اور مختلف خیال سیاسی جماعتوں نے ’’میثاقِ جمہوؔریت ‘‘ کو ’’مذاقِؔ جمہوریت ‘‘ قرار دِیا۔ میرے دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے 24 جون 2019ء کو اپنی ایک نظم میں بہت کچھ کہا تھا لیکن مَیں قارئین کی خدمت میں صرف چار شعر پیش کر رہا ہُوں… 
’’ بہہ کے لندن ؔ دے ، محل دو محلیاں وِچّ ، 
پاکستانیاں نال ، مذاق کردے!
قتل کر کے آپ ، جمہوریتؔ نُوں ، 
جمہوریت دا ، میثاق ؔکردے!
… O …
پھڑے جان ، تے معافی منگ لیندے ، 
نیویں ہوجاندے ، پیر یں پے جاندے!
مِلے کُرسی تے بہن دا ، جے موقع ، 
ظلم لوکاں ، تے وانگ ، خناق کردے !
… O …
رائے وِنڈ دے محل چ ، رہن والے ، 
سرے محل تے جا ، دربان لگیّ!
کوئی شرم وِی نئیں کردے ، 
لوڑ وند جدوں ، اِتفاق کردے !
… O …
بھولے بھالے ، لوکاں نُوں ، پھاہ لیندے ،
 قومی دولت ، ایہہ لَے کے ، نس جاندے!
لُٹّ مار دے ، گُرو گھنٹال دوویں، 
کردے کمّ ، جہیڑا قزاق کر دے!
…O…
’’ اداکار ؔصدر سکندر مرزا ! ‘‘ 
معزز قارئین !پاک فوج کے "Retired Major" سکندر مرزا بھی بہت بڑے اداکار تھے کہ ’’23 مارچ 1956ء سے 27 اکتوبر 1958ء تک صدرِ پاکستان رہے ۔ اُنہوں نے 1958ء ہی میں خود ’’ نشانِ پاکستان ‘‘ کا اعزاز حاصل کرلِیا اور اُن کے بعد اُنہیں برطرف کر کے خُود اقتدار سنبھالنے والے فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان نے بھی 1962ء میں یہ اعزاز حاصل کِیا لیکن سب سے پہلے 1958ء میں سابق گورنر جنرل اور وزیراعظم پاکستان خواجہ ناظم اُلدّین نے یہ اعزاز حاصل کِیا تھا، پھر ’’ حکومت ِ پاکستان ‘‘ نے پاکستان کے کسی بھی صدر یا وزیراعظم کو یہ اعزاز نہیں دِیا اور نہ ہی کسی فوجی حکمران کو؟۔ سوال یہ ہے کہ کیا ’’ نشانِ پاکستان ‘‘ صرف غیر ملکی بادشاہوں ، ملکائوں ، صدور یا وزرائے اعظم اور اداکاروں ہی کے لئے مخصوص ہے؟۔ 
(ختم شد)

ای پیپر دی نیشن