وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا امریکی ہم منصب انتھونی بلنکن کے ساتھ گزشتہ روز ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس کے دوران امریکی انخلاء کے بعد افغانستان کی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔ دونوں رہنمائوں کے مابین دوطرفہ تعلقات اور علاقائی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ گہرے دوطرفہ اقتصادی تعاون، علاقائی روابط کے فروغ اور علاقائی امن کے حوالے سے دوطرفہ تعاون پر محیط وسیع البنیاد اور طویل المدتی تعلقات کیلئے پُرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے نکتۂ نظر میں مماثلت خوش آئند ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کے ذمہ دارانہ انخلاء سے افغان امن عمل پایۂ تکمیل کو پہنچانے میں مدد ملے گی۔
وزیرخارجہ نے گزشتہ روز سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں بھی افغان ایشو پر اظہارخیال کیا اور کہا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت چکائی ہے۔ ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔پاکستان کی افغانستان پر پالیسی واضح ہے۔ ہم افغانستان میں امن و استحکام چاہتے ہیں۔ ہم پر انگلی اٹھانے والا امریکہ بھی آج کہہ رہا ہے کہ پاکستان ہمارا تعمیری شراکت دار اور مددگار ہے۔ اسی طرح قومی سلامتی امور کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے بھی پاکستان کی افغان پالیسی پر اظہارخیال کیا اور کہا کہ افغانستان کی صورتحال ہمارے کنٹرول میں نہیں۔ وہاں خانہ جنگی کا سب سے زیادہ نقصان ہمیں ہوگا جبکہ کالعدم تحریک طالبان کا طاقت پکڑنا بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے باور کرایا کہ ہم نے امریکہ کو افغانستان سے ذمہ دارانہ انخلاء کا مشور دیا تھا مگر وہ اب دوبارہ وہی غلطی کر رہا ہے جو اس نے 90ء کی دہائی میں کی تھی۔ ان کے بقول امریکہ کا افغانستان میں20 سال کی سرمایہ کاری یوں چھوڑ کر جانا سمجھ سے باہر ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ 20 سال پر محیط افغان جنگ میں کچھ حاصل نہ ہونے اور اس کے برعکس بھاری جانی اور مالی نقصانات اٹھانے کے باعث امریکہ مجبور ہوکر افغانستان سے واپس جا رہا ہے جبکہ اس کی واپسی کے بعد طالبان کے ہاتھوں کابل انتظامیہ کا جو حشر ہوگا اور افغان سرزمین جس خانہ جنگی کی لپیٹ میں آئے گی، وہ امریکہ، کابل انتظامیہ اور پاکستان کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمیں اس ممکنہ صورتحال کا اس لئے بھی زیادہ نقصان ہوگا کہ خانہ جنگی کے نتیجہ میں افغان مہاجرین کا نیا سیلاب ڈیورنڈلائن پر لگائی باڑ کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے پاکستان میں داخل ہو جائے گا جبکہ 70ء کی دہائی میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کے دوران پاکستان آنے والے لاکھوں افغان مہاجرین ابھی تک پاکستان میں موجود ہیں جن کی اگلی نسل بھی پاکستان میں پروان چڑھ رہی ہے۔ اب مہاجرین کے نئے بوجھ سے پاکستان کی معیشت کا انجر پنجر ہل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کو بھی افغانستان میں خانہ جنگی سوٹ کرتی ہے کیونکہ اسے افغان سرزمین پر پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنی سازشیں مزید پروان چڑھانے کا موقع ملے گا۔ چنانچہ افغانستان کا عدم استحکام ہمارے عدم استحکام پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں کابل انتظامیہ کے معاملات تو اور بھی دگرگوں ہیںکیونکہ افغانستان سے امریکی انخلاء کا عمل شروع ہوتے ہی افغان طالبان اور گوریلا جنگ کے ماہر دوسرے افغان جنگجوئوں نے افغانستان پر غالب ہونے کی جنگ شروع کر دی ہے اور افغان سکیورٹی فورسز کی لاشوں کے ڈھیر لگا کر اور افغان دھرتی پر خون کی ندیاں بہا کر افغان فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا ہے۔ تازہ ترین میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان نے سکیورٹی فورسز سے جھڑپ کے بعد ایران سے ملحقہ افغان سرحد کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے جبکہ افغان فوجی اہلکار اپنی جانیں بچانے کیلئے ایران کی سرحد عبور کر گئے ہیں۔ طالبان رہنمائوں نے گزشتہ روز ماسکو میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ افغانستان کا 85 فیصد حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے اور ہم چاہیں تو دو ہفتے میں پورے افغانستان کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں۔ اسی طرح افغان طالبان کا یہ اعلان بھی سامنے آیا ہے وہ افغان سرزمین کسی تیسرے ملک کے خلاف کبھی استعمال نہ ہونے دینے کی ضمانت دیتے ہیں۔ افغان طالبان کا یہ اعتماد اور لب و لہجہ اس امر کا عکاس ہے کہ وہ ابھی سے خود کو کابل کے اقتدار پر براجمان سمجھ رہے ہیں اور اسی تناظر میں وہ اپنی آئندہ کی حکمت عملی کا اظہار کر رہے ہیں اور دوحہ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں افغان فوجوں پر حملے روکنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
فی الوقت طالبان اور افغان فوج میںگھسمان کا رن پڑا ہوا ہے اور طالبان نے افغان فضائیہ کے پائلٹوں کی مبینہ ٹارگٹ کلنگ بھی شروع کر دی ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ فضائیہ کے پائلٹس افغان طالبان کی ٹاپ ہٹ لسٹ پر ہیں اور چند ہفتے کے اندر انہوں نے سات پائلٹ قتل کئے ہیں۔
افغانستان میں پیدا ہونے والی اس نئی صورتحال میں ہمیں بہرحال اپنے مفادات کو پیش نظر رکھنا ہے۔ اس وقت امریکہ بھی جارحانہ انداز ترک کرکے افغانستان میں امن کیلئے ہم سے ڈو مور کے تقاضے کر رہا ہے اور کابل انتظامیہ بھی پاکستان سے معاونت کی خواستگار ہے۔ اس حوالے سے پاکستان نے اپنے بہترین قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ درست لائن اختیار کی ہے کہ ہم افغان طالبان کے کسی خاص گروپ کے ہرگز ساتھ نہیں۔ نہ افغانستان میں قیام امن صرف ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ امریکہ کا درد سر ہے، وہی بھگتے۔ ہم نے بہر حال افغانستان کی موجودہ صورتحال میں اپنی سلامتی کیلئے بھارت کی جانب سے لاحق ہونے والے خطرات سے عہدہ برا ہونا ہے۔ بے شک ہم نے افغان جنگ میں امریکی اتحادی بن کر بہت نقصانات اٹھائے ہیں جس کے اب ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔ وزیراعظم عمران خان نے اسی تناظر میں امریکہ کو انکار کی جرأتمندانہ پالیسی اختیار کی جس پر اب کسی صورت اور کسی بھی قسم کی مفاہمت نہیں ہونی چاہئے۔ اب ہماری جانب سے ’’نو مور‘‘ ہے تو ہمیں اس پر ہی کاربند رہنا چاہئے۔