تحریر: محمد اصغر
کیاپاکستان ڈیفالٹ کررہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ریاستی ڈیفالٹ ہوتا کیا ہے ؟اورعام آدمی پر اس کا کیا اثرپڑیگا؟بالکل سادہ ساجواب دیا جائے تو ریاستی ڈیفالٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب ایک قرض دار ملک قرضوں کی قسط اور اسکا سو د بروقت ادا کرنے کے قابل نہ رہے اور یہ کہہ دے کہ ریاست قرضے واپس نہیں کر سکتی تو یہ ریاستی نادہندگی( Sovereign Default )ہے۔ریاستی ناہندگی کے نتیجے میں ناہندہ ملک دوسرے ملکوں سے کوئی چیز یاخام مال منگوانہیں سکتا کیونکہ ا س کے پاس غیر ملکی زرِمبادلہ یا ڈالرزموجود نہیں ہوتے۔ اس وقت پاکستان کے اندر بننے والی 40 فیصد مصنوعات کا خام مال باہر سے درآمد کیاجاتاہے۔اب اگر زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے خام مال نہیں آئے گاتوملکی مصنوعات تیار ہونا بند ہو جائیں گی اور یوں ملکی مصنوعات برآمد نہ ہو سکیں گی۔
پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا تقریباً 60 فیصد انحصارتیل پر ہے۔ ہم سب سے زیادہ پیٹرول یعنی تیل درآمد کرتے ہیں۔ اگر تیل سے بننے والی بجلی کی پیداوارمیں خلل
پڑ ے تو بجلی کی قلت پیدا ہو جائے گی جس سے ٹرانسپورٹ متاثر ہوگی۔ ہوائی جہازوں اوربری فوج کی نقل و حمل پر فرق پڑے گا۔ٹیوب ویل نہیں چلیں گے تو زرعی زمینیں سیراب نہ ہوں گی۔ڈیفالٹ کی صورت میں کھاد اور کیڑے مار ادویات درآمد نہیں ہوں گی تو زراعت پر برا اثر پڑے گا۔ گندم کی پیداوار جو پہلے ہی ناکافی ہے، مزیدکم ہو جائیگی۔ادویات کا خام مال درآمد ہونا بند ہو گا تو عام آدمی کو زندگی بچانے کے لئے ادویات میسرنہیں ہوں گی۔ گھروں، فیکٹریوں اور ہسپتالوں میں بجلی نہیں ہو گی تو نظام زندگی درہم برہم ہو جائے گا۔ تو ملک میں اشیا ئے ضروریہ کی شدیدقلت ہوجائے گی۔
ڈیفالٹ کی ایک خطرناک صورت افراطِ زر ہے جس سے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور مارکیٹ میں چیزیں دستیاب نہیں ہو تیں۔ ڈالر کی قدر میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی ہوجائے گی۔ جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو سب سے زیادہ اس کا اثرعام آدمی پر پڑتا ہے کیونکہ ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ جب امریکی ڈالر ا وپر اور پاکستانی روپیہ نیچے جاتا ہے توحکومت کے خزانہ پر اس کا بہت برااثرپڑتاہے۔ ادائیگیوں کا توازن بگڑ جاتا ہے یعنی تجارتی خسارہ بڑھ جاتاہے درآمدات کی ادائیگیاں زیادہ اور برآمدات کی کم ہو جاتی ہے۔ڈالر کی مانگ زیادہ اور سپلائی کم ہونے سے موقع پرست سٹے باز کاروباری زیادہ سے زیادہ ڈالر خریدنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب ضرورت سے زیادہ لوگ ڈالر خریدیں گے تو لامحالہ ڈالر کی مانگ اور قیمت بڑھ جائیگی۔ فور یکس مارکیٹ میں کرنسی ٹریڈرز بھی ہوتے ہیں جن کا منافع ہی اسی میں ہے کہ سستے ڈالر خرید کر مہنگے داموں فروخت کریں۔ڈیفالٹ کی ایک بڑی وجہ قرضوں کی واپسی نہ کر پانا بھی ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حکمران عالمی اداروں سے مطالبہ کریں کہ سیلاب اور دیگر مسائل کی وجہ سے واجب الاداقرضہ ساقط کردیں یا کم از کم اس کی ادائیگی موخر کر دی جائے۔ بھی کہا جارہا ہے کہ اسے ایک معنی میں بیل آوٹ کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف حکومت کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف سے مدد مل جائے تو ڈیفالٹ کا خطرہ دو تین سال کے لئے ٹل جائے گااور وہ اس دوران کچھ بہتر اقدامات کر لیں گے۔
اگرچہ پاکستان کے ریاستی ڈیفالٹ کا فوری خطرہ نہیں ہے لیکن قرضہ اتنا زیادہ ہے کہ پاکستان اپنی آمدن کی بنیاد پر قرض واپس کرنے کے قابل نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہرسال قرضوں کی قسطوں اور سو د کی ادائیگی حکومت خود اپنے وسائل سے نہیں کر پاتی۔ اس کیلئے بھی ا’ے نئے اور مہنگے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ قرض پاکستان کے وسائل کی لوٹ مار کا ایک طریقہ بن چکا ہے۔ اگر ہم گزشتہ 20 سال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ملک میں نئے قرضے اور مالی امداد(گرانٹس) اتنی نہیں آئی جتنی رقم قرض کی قسطوںاور ا’ پرسود کی ادائیگی کی شکل میں پاکستان سے باہر منتقل ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرضہ دینے والے ملکوں نے پاکستان کو قرضوں کے جا ل میں پھنسا لیا ہے۔ وہ پاکستان کوقرض دیکر بھاری معاوضہ بھی کماتے ہیں اور قوم کوغلام بھی بنا تے ہیں۔ ماضی کے نوآبادیاتی نظام میں وسائل لوٹنے کے دوسرے طریقے ہوتے تھے لیکن نئے نوآبادیاتی نظام کا طریقہ یہ ہے کہ قرضوں کے ذریعے سے غریب ممالک کے وسائل لوٹے جائیں۔ایسے میں کوئی ملک کیسے زندہ رہ سکتا ہے اگر اس کا خون چوسا جا رہا ہو۔
پاکستان کو جولائی 2023 ئ سے شروع ہونے والے مالی سال میں تقریباً 23 بلین ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے جبکہ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر میں صرف 4 بلین ڈالر موجود ہیں۔ اس لئے زیادہ سے زیادہ قرض لینے سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ قرض سے نجات حاصل کی جائے۔ لیکن ایسا تب ہو گا جب ایک مضبوط اصلاح پسند حکومت نظام معیشت میں جوہری اور ساختی تبدیلیاں ( Substantial & Structural Transformation ) لانے کے لئے پرعزم ہو۔پاکستان کی سابق اور حاضر سروس حکومتوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ کیوں نہ ہم ایک ہی مرتبہ کڑوا گھونٹ پی لیں اور قرضوں کے حصول میں دوڑ دھوپ کے بجائے ملکی وسائل اور افرادی قوت و صلا حیت کااستعمال کریں۔ جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی سیاسی جماعت آئی ایم ایف اور سودی قرضوں کی معیشت کی شدومد کے ساتھ مخالفت نہیں کرتی اور نہ ہی یہ داعیہ رکھتی ہے کہ خود انحصاری، کفایت شعاری، بہتر گورننس اور انسانی وقومی وسائل کو بہتر استعمال کرکے ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنایا جاسکتاہے۔ پاکستان کے لئے موقع پیدا ہو گیا تھا کہ آئی ایم ایف اور قرضوں کی معیشت کو خدا حافظ کہہ دے او ر خطے میں بڑھتے ہوئے روس، چین، سعودی عرب اور ایران تعلقات سے فائدہ ا…ھائے۔مگر 22 جون 2023 ئ کووزیر اعظم شہباز شریف کی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پاکستان میں امریکی سفیر سے ملاقاتوں نے پاکستان پر آئی ایم ایف کے شکنجے کو مزیدسخت کر دیا ہے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں 24 جون 2023 ئ کی تقریر میں اعلان کیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط مِن وعَن مان لی گئی ہیں اور نئے مالی سال کے بجٹ میں2023 ( میں 215 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگانے کے علاوہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی - آئی ایم ایف کے دباؤ پر تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔لہٰذاوفاقی حکومت اگلے مالی سال ) 24میں اضافہ کر رہی ہے اور تنخواہ دار طبقہ پر مزید 2.5 فیصد انکم ٹیکس لگا رہی ہے۔ یادرہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نئے مالی سال کی بجٹ تقریر میں پہلے ہی 223 ارب کے ٹیکس لگا رکھے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سالانہ بجٹ منظور ہونے سے پہلے منی بجٹ دے دیا گیا ہے۔حکومت کا آئی ایم ایف کی شرائط پر 2.1 بلین ڈالر کاقرضہ حاصل کرنے کا معاہدہ ایک عارضی انتظام ہو سکتا ہے۔لیکن معاشی بحران سے مستقل نجات ا’ی وقت ممکن ہے جب پاکستان میں نئے عام انتخابات کے بعد تازہ عوامی مینڈیٹ کی حا مل جمہوری حکومت معنی خیزاور دوررس معاشی فیصلے کرے گی اور سودی قرضوں اور سو‹ی نظام معیشت کو ترک کرے گی۔
ریاستی ڈیفالٹ یا آئی ایم ایف ؟
Jul 11, 2023