عنبرین فاطمہ
فلمسٹار رانی جو پاکستان فلم انڈسٹری کا ایک جانا مانا نام ہیں ، انہوں نے اپنے دور میں سپر ہٹ فلمیں دیں ان کے کریڈٹ پر نہ صر ف سپر ہٹ فلمیں ہیں بلکہ سپر ہٹ گانے بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے دور کے تمام نامور ہیروز کے ساتھ کام کیا۔ اور ٹی وی پر خواہش کے نام سے ایک ڈرامہ بھی کیا۔ اداکارہ رانی 1993 میں کینسر کی تشخیص ہونے پر اس مرض کے خلاف لڑتے لڑتے اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ اس سال مئی میں ان کی تیسویں برسی منائی گئی ۔ان کی بیٹی رابعہ حسن جو کہ این سی سے گریجوایٹ ہیں اور ویثول آرٹسٹ ہیں وہ ہر سال ان کے کام کی الگ انداز میں نمائش کرتی ہیںاس برس بھی انہوں نے ان کے کام کی کچھ تصاویری نمائش کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر ہم نے رانی کی بیٹی ’’رابعہ حسن ‘‘کا خصوصی انٹرویو کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ بطور ماں رانی کیسی تھیں اور رابعہ کے ساتھ ان کے گزرے وقت کی کیا یادیں ہیں۔ رابعہ نے کہا کہ میں ہر سال اپنے کام کے زریعے اپنی ماں کو ان کی برسی کے موقع پر ٹریبیوٹ پیش کرتی ہوں۔ میرا کام چونکہ عورتوں کی نمائندگی کرتا ہے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں ان پہلوئوں کو اجاگر کروں جو عورت کے کردار کو سوسائٹی کے سامنے مزید مضبوط بناتے ہیں۔ رابعہ حسن نے کہا کہ میری ماں مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں ، اور جیسے ان کے مداح ان سے بہت محبت کرتے ہیں ویسے ہی میں ان سے محبت کرتی ہوں بلکہ وہ میری ماں تھیں تو میں تو ان سے ڈبل محبت کرتی ہوں۔ ماں کے لئے ہر انسان کا جذبہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے چاہے وہ ایکٹر ہو ، ڈاکٹر ہو۔ میری ماں بہت زیادہ محبت کرنے والی انسان تھیں۔میں اپنی ماں کی کیا کیا تعریفیں کروں؟ وہ اتنی اچھی تھیں کہ ان کو یاد کرکے میں جذباتی ہوجاتی ہوں۔ رابعہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب میری ماں انتقال ہوا اس وقت میری عمر بیس سال تھی ، ان کی زندگی کے آخری مہینے میں ان کی بیماری کے بارے میں پتہ چلا اور اسی ایک مہینے میں ٹریٹمنٹ ہوا اور وہ دنیا سے چلی بھی گئیں ، ان کو کینسر ہونا ، ان کا انتقال ہونا یہ سب ہمارے لئے ایک جھٹکا تھا۔ رابعہ نے کہا کہ میری والدہ بالکل بھی سخت مزاج کی نہیں تھیں بلکہ وہ بہت ہی نرم مزاج کی خاتون تھیں۔ ہاں میرے لئے انہوں نے یہ سختی کر رکھی تھی کہ میں فلموں میں یا شوبز میں نہیں جائوں گی اور یہ قدرتی سی بات تھی ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے لئے ذرا زیادہ سخت ہوتی ہیں لیکن میں پھر بھی اسکو سختی نہیں کہوں گی کیونکہ اگر وہ سوچتی تھیں کہ مجھے انڈسٹری میں نہیں جانا چاہیے تو یہ ان کا بطور ماں حق تھا اور میں نے بھی وہی کیا جو وہ چاہتی تھیں۔ رابعہ نے کہا کہ میں بچپن سے یہ سوال سنتی آرہی ہوں کہ آپ شوبزمیں کیوں نہیں آئیں ، بھئی مجھے پتہ تھا کہ شوبز انڈسٹری میرے لئے نو گو ایریا ہے تو میں کیوں سوچتی کہ میں نے شوبز میں جانا ہے اور ویسے بھی مجھے ہیروئین بننے کا بالکل بھی شوق نہیں تھا ، میری والدہ فنکارہ تھیں والد ڈائریکٹر تھے ، لہذا مجھ میں وہ رنگ تو آنا ہی تھا تو میں فائن آرٹس میں چلی گئی اور فائن آرٹس بھی آرٹ ہی ہے۔ رابعہ حسن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میری والدہ شوبز کو گھر کے دروازے کے باہر رکھتی تھیں یہ بات بالکل سچ ہے، اور وہ گھر میں ایک نارمل خاتون کی طرح ہوتی تھیں ، وہ گھر کے کام بھی کرتی تھیں ، اور جیسے گھریلو خواتین اپنے گھر کے کاموں کی فکر کرتی ہیں ویسے ہی وہ بھی کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میری ماں کے کریڈٹ پر بہت بڑی بڑی اور سپر ہٹ فلمیں ہیں مجھے ان کی ساری فلمیں اچھی لگتی ہیں لیکن ان کی تین فلمیں مجھے بے حد پسند ہیں، امرائو جان ادا، ثریا بھوپالی اور بیگم جان ، نا صرف یہ فلمیں بہت اچھی تھیں بلکہ ا ن کے گانے بھی بہت اچھے تھے۔ امی نے اپنے وقت کے تمام بڑے ہیروز کے ساتھ کام کیا اور ہر ہیرو کے ساتھ ان کی جوڑی کو بہت سراہا گیا ، لیکن مجھے ان کی جوڑی وحید مراد کے ساتھ بہت اچھی لگتی تھی۔ میری وحید مراد کے ساتھ کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی وہ کراچی میں رہتے تھے ، فلم انڈسٹری بھی تقریبا وہیں جا چکی تھی اور پھر وحید مرادکا انتقال ہو گیا یوںمیری کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ رابعہ حسن نے کہا کہ حسن طارق جو کہ فلم انڈسٹری کے ایک بڑے ڈائریکٹر تھے وہ میرے والد تھے میں جب پانچ چھ سال کی تھی تو ان کا انتقال ہو گیا تھا اسلئے میری ان کے ساتھ بہت ساری یادیں نہیں ہیں صرف اتنی سی دھندلی سی یادیں ہیں کہ ہم اکٹھے بیٹھے تھے کھانا کھایا تھا۔ میں اپنے ابو کا کام دیکھتی ہوں توبہت زیادہ لطف اندوز ہوتی ہوں ، ان کا کام دیکھ کر ان کو اور بھی زیادہ مس کرتی ہوں کیونکہ وہ آج زندہ ہوتے تو ہم دونوں مل کر کام کرتے تو بہت انجوائے کرتے۔ رابعہ حسن نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ انسان کے اندر اگر کسی کیرئیر کو اپنانے کا جذبہ شدت سے ہو تو راستے خود بخود بن جاتے ہیں جیسے میری امی اداکارہ بننا چاہتی تھیں تو امی کے رشتہ داروں کو جب یہ پتہ چلا کہ امی فلموں میں کام کرنے کا شوق رکھتی ہیں تو انہوں نے امی کو چھوڑ دیا ، یوں امی کے رشتہ دار چھٹ گئے لیکن میری نانی نے میری امی کا بہت زیادہ ساتھ دیا اور امی نے بھی پھر خوب جم کر محنت کی۔ یوں اگر کسی میں کسی بھی کیرئیر کو اپنانے کا جذبہ شدت سے ہو تو راستے بن جاتے ہیں اور کامیابیاں بھی ملتی ہیں۔ رانی کی بیٹی رابعہ حسن نے کہا کہ میری والدہ عمرے پر جانا چاہتی تھیں لیکن ان کی زندگی نے ان سے وفا نہ کی۔ ان کی وفات کے بعد اللہ نے مجھے موقع دیا اور میں نے ان کے نام کا عمرہ کیا ، اسی طرح سے امی اکثر گلہ کرتی تھیں کہ انہوں نے اتنا کام کیا اتنی سپر ہٹ فلمیں دیں لیکن ان کو آج تک پرائیڈ آف پرفارمنس نہیں ملا۔ انہوں نے آخر میں اپنی امی کے ساتھ گزرے ہوئے وقتوں کو ایک بار پھر یاد کرتے ہوئے کہا کہ میں اور میری والدہ بیڈ منٹن کھیلا کرتے تھے ، ایک ساتھ شاپنگ پر جایا کرتے تھے ، وہ ڈرائیو بھی خود کرتی تھیں ، اور میرے ساتھ جا رہی ہوتی تھیں تو کبھی اشارہ ٹوڑ لیتیں تو سارجنٹ روک لیتا تو ایکٹنگ شروع کر دیتیں کہتی مجھے پتہ نہیں چلا دراصل مجھے ہسپتال جانا ہے۔ ان کا حس مزاح بہت زبردست تھا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو میں لاہور میں نانی کے پاس تھی کیونکہ ان کی طبیعت بہت خراب تھی ، اور امی کراچی میں آغا خان ہسپتال میں تھیں مجھے ڈاکٹروں نے کال کی کہ رانی کی طبیعت بہت خراب ہے لہذا آجائیں جب میں وہاں پہنچی تو وہ کومہ میں تھیں اور اس کے بعد اللہ کو پیاری ہو گئیں۔