کتب بینی ، رو بہ زوال کیوں؟ 

تحریر۔ محمد اقبال عباسی 

 کائنات کی سب سے حسین تخلیق انسان ہے جس کواللہ تعالیٰ نے نہ صرف بہترین صورت میں پیدا کیا بلکہ خلیفہ ارضی جیسا خطاب دیتے ہوئے تمام مخلوقات سے اشرف قرار دے کر اس دنیا میں بھیجا ، اس پر طرّہ یہ کہ اس کی تربیت کے لئے پیغمبر بطور معلّم بھیجے۔ اس کی روحانی تسکین کے لئے الہامی کتب کے ساتھ ساتھ دنیاوی علم کی کتب کا اہتمام بھی بخوبی کیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ انسانی دماغ کو متحرک کرنے اور ذاتی مسائل سے اس کی توجہ ہٹانے میں مدد کرتا ہے اور ان تمام عوامل کا خاتمہ بھی کرتا ہے جو کسی فرد کے ذہنی تناؤ کے ذمہ دار ہیں۔ ایک کتاب آپ کے ذہن کو مثبتیت سے بھرنے کی طاقت رکھتی ہے اور انسان کو جینے کا دھنگ سکھانے کے ساتھ ساتھ اس کو منزل مقصود تک پہنچانے میں بھر پور کردار ادا کر تی ہے۔ نوعِ انسانی کے لئے معّلم کے بعد کتاب ہی سیکھنے اور سکھانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب اور انسان کا ازل سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے یہ سفر پیغمبرانِ کرام ، اولیاء اللہ اور صلحائکی صحبت سے ہوتا ہوا فلسفیوں اور مرشد کے زیر سایہ سرانجام پاتا رہا۔ یونانی ، رومی اور مسلم علماء  اور اولیاء کرام نے اپنے اپنے تجربات اور علم کا نچوڑ کتاب کی شکل میں اپنی آنے والی نسل کو اس طرح سے منتقل کیا کہ فاتحین زمانہ بھی ان کے علمی خزانے کا ترجمہ کروانے پر مجبور ہو گئے تاکہ یہ ورثہ ضائع نہ ہو۔ مسلم سلاطین اور فرمانرواؤں نے علوم و فنون کی ترویج و اشاعت کی طرف خصوصی توجہ دی۔ جگہ جگہ تعلیمی ادارے، درسگاہیں اور کتب خانے تعمیر کئے گئے۔ خلافت عباسیہ کے دور میں سب سے پہلے کتب خانہ "بیت الحکمہ" قائم کیا گیا تھا جہاں ہزاروں کی تعداد میں نادر و نایاب کتابیں موجود تھیں۔اس کے بعد فاطمی حکمرانوں نے مصر میں عظیم الشان لائبریری تعمیر کی، جس کا نام "خزانہ الکتب" رکھا گیا۔ اس وقت مسلم ملکوں میں اس سے بڑا کتب خانہ موجود نہیں تھا۔ اس میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں موجود تھیں،جو طلبائ￿ کی علمی تسکین کا سبب بنتی تھیں۔سائنس نے ترقی کی تو کتاب بھی استبدادِ زمانہ کا شکار ہو گئی اور لائبریریوں سے نکل کر کمپیوٹر کی یاداشت میں پاتال کی گہرائیوں میں مدفون ہوئی ہے۔ کتاب کے کوما میں جانے اور وینٹیلیٹر پر سانس لینے کا سب سے بڑا سبب نہ صرف زوال پذیر معاشرہ ہے بلکہ غیر مفید ادب اور تحقیق ہے۔ 
میری ناقص رائے میں عظمت رفتہ کے قصے کسی بھی نسل کے قومی و ملّی جذبات کو ابھارنے اور درست سمت کا تعیّن کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اگر یہ قصے اور کہانیاں سینہ بہ سینہ گردش کریں تو اس سے بہت کم لوگ مستفید ہو سکتے ہیں۔ اب صرف کتب ہی ایک ایسا ذریعہ ہیں جو کسی قوم کو درست سمت میں رکھتی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کتابوں کو اگر قومی و ملکی سرپرستی حاصل ہو اور ایسی کتب نونہالانِ وطن کی رسائی میں بھی ہوں۔ جب سے پوری دنیا میں لوگوں کی زندگی میں کمپیوٹر نے اپنی جگہ بنائی ہے تو کتب خانے ویران ہو کر رہ گئے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ ارباب اقتدار نے ان کتب خانوں کی سرپرستی چھوڑ دی ہے۔ وہ کتب خانے جہاں ملک و قوم کے ذہن طلبائ￿ اپنے مستقبل کی راہ متعین کرتے تھے ، اب پریمی جوڑوں کی آماجگاہ بن گئے ہیں۔
ورلڈ کلچر سکور انڈیکس نے دنیا بھر کے لوگ ہفتہ وار بنیادوں پر پڑھنے میں صرف کیے جانے والے وقت کی پیمائش کے لیے ایک عالمی سروے کیا، جس کے نتائج میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ کس قسم کا مواد پڑھا جا رہا ہے، جو آن لائن خبروں سے لے کر ای میلز اوری میگزین سے لے کر پرنٹ میں کتابوں تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔سروے کے نتائج کے مطابق ہندوستان اس فہرست میں سرفہرست ہے جس کے شہریوں نے ہفتے میں اوسطاً 10 گھنٹے 42 منٹ پڑھنے میں صرف کیا۔یاد رہے کہ انڈیاکی شرح خواندگی عالمی اوسط 74% سے کم ہے۔تھائی لینڈ دوسرا سب سے زیادہ گھنٹے پڑھنے میں گزارنے والا ملک ہے۔ تھائی لینڈ کے باشندے ہفتہ وار اوسطاً 9 گھنٹے اور 24 منٹ پڑھنے میں صرف کرتے ہیں۔ اضافی سروے سے پتا چلا ہے کہ تقریباً 88 فیصد آبادی پرنٹ میں کتاب پڑھتی ہے اور روزانہ تقریباً 28 منٹ انہیں پڑھنے میں صرف کرتی ہے۔مطالعے میں وقت صرف کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد چین میں ہے، جہاں ہر ہفتے تقریباً 8 گھنٹے لوگ مطالعے میں حصہ لیتے ہیں۔ اس ملک کی شرح خواندگی 96.4% ہے جو کہ عالمی اوسط 86.3% سے زیادہ ہے۔
ہمسایہ ملک بھارت کی کامیابی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ وہ کتب کے معاملے میں پوری دنیا میں سر فہرست ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ اس ملک میں بندر بانٹ کو جو رواج تقسیم کے بعد پڑا تھا ، وہ آج تک قائم ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ، بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے علاوہ جس کے ہاتھ میں جو لگتا ہے وہ لوٹنے کھسوٹنے پہ لگا ہوا ہے۔ میرا یہ مشاہدہ ہے کہ اگر کسی ملک سے ہمیں کمیشن پر کتب اور مطالعہ کتب کا کوئی منصوبہ ملتا ہو تو ملکی انتظامیہ تندہی سے اس پر کام شروع کر دیتی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے آبائ￿ کی میراث کو سنبھالیں اور پبلک لائبریریوں کی بحالی پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ سکول ، کالجوں اور یونیورسٹی کے کتب خانوں کے لئے بھی بجٹ مخصوص کیا جائے۔ میری ناقص رائے کے مطابق قارئین میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک معیاری ادبی اور تحقیقی کتب شائع کی جائیں۔ ہمسایہ ملک بھارت میں کتب شائع کرنے والے اداروں نے ایک بہت بڑا کارنامہ یہ سر انجام دیا ہے کہ مختلف بین الاقوامی محققین کی کتب کو کم قیمت کاغذ پر چھاپ کر ارزاں قیمت میں قاری تک پہنچا یا ہے۔ اگر ایک کتاب 5000روپے کی ہے تو اس کا انڈین ایڈیشن کم از کم 500روپے میں ہو گا۔ پبلشرز کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کے ساتھ ساتھ کاغذ پر درآمدی ڈیوٹی بھی کم کی جا سکتی ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی ہے کہ سرائیکی ادبی بورڈ کے زیر انتظام شائع شدہ کتب کا کو ئی خریدار نہیں تو میں نے دی گئی فہرست میں سے 3000کتابوں کی ڈیمانڈ متعلقہ فرد کو بھیجی لیکن مجھے ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ جب پورا ملک خیرات اور بھیک پر چلے گا تو کیسے ممکن ہے کہ ادارے معاشی بد حالی کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں۔ یونیورسٹی اور کالجوں کے نصاب میں جو کتب طلبائ￿ کے لئے تجویز کی جاتی ہیں ، اولاً تو وہ متعلقہ لائبریری میں موجود ہی نہیں ہوتی اور بازار میں بھی ان کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے اکثر طلبائ￿ وہ کتب خریدنے کی بجائے کسی گائیڈ یا گیس پیپر کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ پوری کتاب کے مطالعہ کی بجائے صرف کتاب کا خلاصہ ہی پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر حکومت کوئی ایسا انتظام کرے کہ طلبائ￿ کے داخلے کے وقت جو لائبریری فنڈ کی کٹوتی کی جاتی ہے اسی سے ہر سال وہی کتب خرید کر لائبریری میں مہیا کر سکے تو یہ سونے پر سہاگے سے کم نہیں ہو گا۔اس کے علاوہ اگر سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ تیسری جماعت سے ہر مضمون کے لئے ایک کتاب اضافی اور ہم نصابی سرگرمی کے تحت مفت مہیا کرے ،جس سے بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا ہو گا۔ معیاری اور تخلیقی کتب کی ترویج اور اشاعت کے لئے ضروری ہے کہ بیوروکرسی اور مقتدرہ کے ساتھ ساتھ اشرافیہ ، کتب شائع کرنے والے اداروں سے کمیشن لینے کی بجائے سختی کرے کیونکہ ہماری بقا ، وطن عزیز پاکستان کی بقا کے ساتھ منسلک ہے ، خدانخواستہ اگر ہمارے ملک کو کچھ ہوا تو ہماری آنے والی نسل کا بہت بڑا نقصان ہو گا۔ 

ای پیپر دی نیشن