عبدالحفیظ سالب آزاد جموں و کشمیر کی صحافت و سیاست کا ایک اہم باب تھے، افسوس کہ 8 اکتوبر 2005 ء کے قیامت خیز زلزلہ کے سانحہ میں ہماری یہ متاع عزیز بھی لٹ گئی۔ آزادکشمیر کی نشریاتی اور صوتی تاریخ میں بھی سالب صاحب کا نام انکی گراں قدر خدمات کے باعث ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔
سالب صاحب سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب انہوں نے راولپنڈی میں اپنے کسی عزیز کے ہاں جرات راولپنڈی کا کوئی شمارہ دیکھا اور مجھے ایک خط لکھ کر اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مظفر آباد میں جرأت کے نمائندے کی حیثیت سے کام کرکے خوشی محسوس کریں گے۔ میں نے خط پڑھتے ہی سالب صاحب سے فون پر رابطہ قائم کیا۔ وہ اس بات پر بہت حیران ہوئے کہ میں نے خط ملتے ہی کوئی وقت ضائع کئے بغیر ان کو فون کیا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ جرات سے وابستگی اختیار کرنا چاہتے ہیں اورساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کا تعلق نامہ نگار کی حیثیت سے نہیں بلکہ آپ مظفر آباد میں جرات کے ایڈیٹر ہوں گے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ ہم مظفر آباد سے جرات کا ایڈیشن شائع کرنا چاہتے ہیں اور میری اس بارے میں ابتدائی بات چیت صدر آزاد جموں و کشمیر سردارمحمد عبدالقیوم خان اور وزیراعظم سردار سکندر حیات خان سے لاہور کی ایک تقریب میں ہوچکی ہے اور انہوں نے مظفر آباد سے جرات کے ڈیکلریشن کے اجراء میں ہر ممکن مدد کا یقین دلایا ہے۔ آپ اس سلسلے میں رسمی قانونی کارروائیوں کی ابتدا کریں۔ انہوں نے اسی روز ڈیکلریشن فارم مجھے بھیج دیئے جو میں نے پْر کرکے انہیں واپس کردیئے۔ چند روز بعد ہی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مظفر آباد کے جموں و کشمیر کونسل سیکرٹریٹ اسلام آباد کو بھجوائے گئے ایک خط کی نقل انہوں نے مجھے بھجوا دی جس میں مجھے مظفر آباد سے جرات شائع کرنے کی اجازت دینے کی سفارش ان الفاظ میں کی گئی تھی۔
مورخہ 2 دسمبر1987ئ، نمبر ڈی ایم 87/51-41-42
’’روزنامہ جرات راولپنڈی سے باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ اخبار مذکورہ کے مدیر اعلیٰ جناب جمیل اطہر نے درخواست گزاری ہے کہ وہ روزنامہ جرات کا ایک ایڈیشن مظفر آباد سے بھی جاری کرنا چاہتے ہیں۔ فی الوقت آزادکشمیر سے کوئی بھی روزنامہ جاری نہیں ہوتا۔ اس کمی کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے۔ روزنامہ جرات راولپنڈی کی پالیسی منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اخبار نظریہ پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر میں تحریک الحاق پاکستان کا نقیب بھی ہے۔ اگر روزنامہ جرات کا ایڈیشن مظفر آباد سے جاری ہوجائے تو اس سے نہ صرف تحریک آزادی کے کاز کو تقویت ملے گی بلکہ علمی، ادبی حلقوں میں بھی خوش گوار اثرات مرتب ہوں گے۔ روزنامہ جرات کا مظفر آباد سے ڈیکلریشن جاری کرنے کیلئے سفارش کی جاتی ہے۔‘‘
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مظفر آباد کی اس سفارش کے باوجود مظفر آباد سے اخبار شائع کرنے کی اجازت میں تاخیر ہوتی چلی گئی اور پتہ یہ چلا کہ میرے ایک دوست جو ایک سات روزہ اخبار شائع کرتے ہیں اور وزیراعظم آزاد کشمیر کے ذاتی دوست ہیں وہ اس منظوری کی مزاحمت کررہے ہیں اور اس وجہ سے این او سی (عدم اعتراض کا خط) جاری ہونے میں تاخیر ہوتی جارہی ہے۔ بہر حال کچھ عرصہ بعد یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ جناب ایم ارشد جو روزنامہ وفاق میں میرے رفیق کار رہے۔ ایبٹ آباد سے ایک اخبار شائع کرنے کیلئے پریس کی مشینری خریدنے میرے پاس آئے اور مجھے یہ بتایا کہ امور کشمیر کے وفاقی وزیر سید قاسم شاہ ایک اخبار نکالنا چاہتے ہیں اور انہوں نے یہ کام ارشد صاحب کو سونپ دیا ہے۔ جب میں نے بتایا کہ ہم نے مظفر آباد سے روزنامہ جرات کے اجراء کیلئے درخواست دی ہوئی ہے اور سید قاسم شاہ اس معاملے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ جہاں تک قاسم شاہ صاحب کا تعلق ہے آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ کا مسئلہ حل ہوگیا۔ میں ایبٹ آباد واپس پہنچ کر شاہ صاحب سے بات کرکے آپ کو فون کردوں گا۔ آپ اسلام آباد آجائیں اور ہم اکٹھے سید قاسم شاہ سے مل لیں گے۔ اگلے ہی روز ایم ارشد کا فون آگیا۔ انہوں نے تاکید کی کہ میں کل گیارہ بجے سید قاسم شاہ کے دفتر میں پہنچ جائوں جہاں وہ پہلے سے میرے منتظر ہوں گے، ان کی ہدایت کے مطابق میں وہاں پہنچ گیا۔ ایم ارشد نے میرا نہایت مختصر اور جامع الفاظ میں تعارف کرایا اور سید قاسم شاہ نے روزنامہ جرات مظفر آباد کے ڈیکلریشن کی توثیق کرنے کے احکام جاری کر دیئے۔ ہم نے جناب عبدالحفیظ سالب کو اس پیش رفت سے آگاہ کیا تو وہ بہت خوش ہوئے او ر مبارک باد دی۔ جناب عبدالحفیظ سالب تادم مرگ روزنامہ جرات مظفر آباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر رہے۔(جاری)
سالب صاحب دانہ (بارہ مولا) میں پیدا ہوئے اور ترک وطن کے بعد پاکستان آئے۔پاکستان آکر وہ ریڈیو آزاد کشمیر سے وابستہ ہوگئے۔ ان کے کئی پروگراموں نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ ریڈیو سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ روزنامہ جرات مظفر آباد کے ایڈیٹر بنے، انہوں نے مظفر آبا د میں سنٹرل پریس کلب کی بنیاد رکھی اور اسکے چیئرمین منتخب ہوئے، پھر انہوں نے اپناسات روزہ جریدہ آغاز نکالا۔ انہوں نے کشمیر کی آزادی کے حوالے سے ایک ٹیلی ویڑن ڈرامے میں بھی کام کرکے بڑی شہرت حاصل کی۔
سالب صاحب 8 اکتوبر2005 ء کو زلزلہ کے سانحہ میں شہید ہوگئے۔ میں نے ان کے انتقال کی خبر سانحہ کے دو روز بعد ریڈیو پاکستان کے ایک خبرنامہ میں سنی کیونکہ آزادکشمیر کا پاکستان سے مواصلاتی رابطہ منقطع ہو چکا تھا اور ان کے فون نمبروں سے کوئی جواب نہیں آرہا تھا۔
ان کی صاحبزادی نے سات روزہ آغاز میں ایک مضمون لکھ کر سالب صاحب کی زندگی کے آخری لمحوں کی یادیں ان الفاظ میں تازہ کی ہیں۔
’’ میں نے 7 اکتوبر2005 ء کو رات کو چاند کو بہت اْداس دیکھا۔ جب میں نے چاند کو غلط سمت میں غروب ہوتے دیکھا تو اپنے ابو سے کہا اِدھر آئیں دیکھیں چاند کہاں غروب ہو رہا ہے۔ انہوں نے بھی شائد یہ محسوس کیا کہ اس طرح کیوں ہو رہا ہے تو فقط یہ الفاظ ان کی زبان پر جاری ہوئے۔ بیٹا! یہ قیامت کی نشانی ہے۔ یہ ماہ رمضان تھا۔ ہم عشا کی نماز کے بعد اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لئے چلے گئے۔ جس طرح وہ شب سیاہ تھی اسی طرح 8 اکتوبر کو صبح بھی مجھے اتنی روشنی نہ لگی۔ آٹھ بجے صبح گھر سے دفتر جانے کے لئے نکلتے ہوئے کھڑکی سے اپنے ابو کو دیکھا تو میں نے ان کا چہرہ ملول پایا۔ یہ منظر آج بھی آنکھوں میں ٹھہر سا گیا ہے۔ میں نے دفتر جاتے ہوئے اپنے گھر کو حویلی کی طرح شان و شوکت سے کھڑے دیکھا۔ آٹھ بج کر چالیس منٹ ہوں گے میں اپنے دفتر میں دارالفلاح کی بیوہ عورتوں کو رمضان کے لئے راشن دے رہی تھی اور وہ قریب ہی کرسیوں پر بیٹھی رجسٹر پر دستخط کررہی تھی کہ درودیوار ہلنے لگے اور ایسی خوفناک آوازیں سنائی دینے لگیں جیسے قیامت آگئی ہو۔ میں نے خواتین سے کہا کہ وہ کرسیاں چھوڑ کر نیچے زمین پر بیٹھ جائیں۔ ہم سب کلمہ شریف اور درود شریف کا ورد کررہے تھے۔ ہم آہستہ آہستہ بیٹھ بیٹھ کر عمارت سے باہر آئے تو دیکھا کہ ہر طرف آہ و بکا کا عالم تھا۔ لوگ اِدھر سے اْدھر بھاگ رہے تھے۔ سامنے پہاڑ ٹوٹ کر نیچے آرہا تھا۔ ہر طرف خون ہی خون تھا۔ سامنے کی عمارتیں گر رہی تھیں۔ چاروں طرف گردوغبار تھا۔ امی ابو سے رابطہ ممکن نہیں رہا تھا۔ بس اتنا خیال تھا کہ ہوسکتا ہے گھر میں کچھ دراڑیں پڑی ہوں۔ امی ابو ٹھیک ہوں گے۔ میں دفتر کی ملازمہ کو ساتھ لے کر گھر کی طرف چل پڑی۔ جھٹکے متواتر لگ رہے تھے۔ گھر کی طرف جانے والا ہر راستہ قیامت کا منظر پیش کررہا تھا۔ بڑے بڑے گھر ، کوٹھیاں گری ہوئی یا بس گرنے والی تھیں۔ لوگ زخمی حالت میں اپنے پیاروں کی تلاش میں اِدھر اْدھر بھٹک رہے تھے۔ کالج روڈ پر تو منظر ہی اور تھا۔ پھولوں کی طرح پیاری ، شرمیلی بچیوں کو لوگ ملبہ سے نکال رہے تھے۔ حسین بالوں والی دراز قدکونپل بھی ان لاشوں میں سے ایک لاش تھی۔ میں نیم بے ہوشی کی حالت میں گری ہوئی دیواروں کو پھلانگتی اپنی گلی کی نکڑ تک پہنچتی ہوں۔ میری بہن راشدہ مجھے کہتی ہے کہ گھر گر گیا ہے۔ سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ امی ابو گھر کے ملبے تلے دب گئے ہیں۔ البتہ بھائی، بھابھی کو ملبہ سے نکال لیا گیا ہے۔ میں بمشکل گھر تک پہنچتی ہوں تو اپنے پیارے گھر کو زمین بوس پایا۔ میرے پیارے امی اور ابو ملبہ کے نیچے تھے۔ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا اور وہاں کوئی ایسی چیز میسر نہیں تھی کہ جس کی مدد سے لینٹر کو توڑا جاسکتا۔ بے چارہ طارق باہر نکالتے نکالتے اللہ کو پیارا ہوگیا۔ میں ہر آنے جانے والے کو پکارتی رہی کہ میرے ابو امی کو ملبہ سے نکالیں لیکن بے بسی اور نفسا نفسی کا عالم تھا اور کوئی مدد کو نہ آیا اور میریے امی ابو مدد کوپکارتے پکارتے اللہ کے پاس پہنچ گئے۔
دو راتیں کھلے آسماں تلے جلال باغ میں گزاریں۔ تیسرے دن میرے پیارے بھائی منیر احمد سعودی عرب سے آئے اور اپنے ساتھ راولپنڈی سے آئے چند عزیزوں اور لائی ہوئی کدالوں کی مدد سے ان کے جسد خاکی ملبہ سے نکالے جاسکے۔ اس قیامت میں چند لوگوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور دونوں شہدائ کو ساتھ ساتھ منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آخر میں ڈاکٹر کاشف رفیق کے چند اشعار۔
کبھی آباد تھا یہاں اک شہر
یا تھا شاید میرا گماں اک شہر
O
کتنی صدیوں کا تھا سفر اس کا
ایک پل میں گیا کہاں اک شہر
O
کل تھا تصویر حسن جنت کی
آج عبرت کا ہے نشاں اک شہر
O
کرب، اندوہ، یاس، حسرت اور
بے بسی کی ہے داستاں اک شہر
O
آہ! کاشف وہ لوٹ سکتے نہیں
جن کے دم سے تھا شادماں اک شہر